کیا رسول اللہ (ص) وجہ تخلیق کائنات ہیں؟


سوال نمبر:4706
کیا ساری کائنات حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے بنائی گئی ہے؟ کیا کسی نص میں ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا؟

  • سائل: غلام قادر اعوانمقام: نارووال
  • تاریخ اشاعت: 28 فروری 2018ء

زمرہ: فضائلِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

جواب:

قرآن و حدیث اور ان کی تشریحات و توضیحات کا تمام ذخیرہ چھان لیں ہمیں از اوّل تا آخر ایک ہستی، ایک ذات اور ایک شخصیت دکھائی دیتی ہے جو اس پوری بزم کون و مکان میں محبوبیت عظمیٰ کے مقام پر فائز ہے اور وہ ہے ہمارے آقائے نامدار حضور تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس۔ تمام خلق میں کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر کیسے ہوتا کہ خالق نے تواس عالم و ارض و سماء میں جن و انس اور موت وحیات کا نظام بنایا ہی اسی کے لیے ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیثِ قدسی کا مضمون ملاحظہ کریں جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وعزتي و جلالي لولاک ما خلقت الجنّة ولولاک ما خلقت الدّنيا.

’’میری عزت و عظمت کی قسم، اگر میں آپ کو پیدا نہ کرتا تو جنت کو بھی پیدا نہ کرتا اور اگر آپ کو پیدا نہ کرتا تو پھر دنیا کو بھی پیدا نہ کرتا۔‘‘

ديلمي، الفردوس بمأثور الخطاب، 5: 227، رقم: 8031

ایک اور حدیث جسے کثیر ائمہ و محدثین نے ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے:

لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الأفْلَاکَ.

’’محبوب! اگر آپ کو پیدا نہ کرتا تو کائنات ہست و بود کو بھی وجود میں نہ لاتا۔‘‘

1. عجلوني، کشف الخفاء، 2: 214، رقم: 2123
2. آلوسي، تفسير روح المعاني، 1: 51

معروف مفسر امام آلوسی رحمۃ اللہ علیہ (م 1270ھ) نے تفسیر روح المعانی میں حقیقت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیان میں اس حدیث کو بیان کیا ہے پھر اسی روایت کو سورۃ الفتح کی آیت إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا میں ’’لَكَ‘‘ کی تفسیر میں لکھا ہے:

أن لام (لَکَ) للتعليل و حاصله أظهرنا العالم لأجلک و هو في معني ما يرونه من قوله سبحانه (لولاک لولاک ما خلقت الأفلاک).

’’(لَکَ) میں لام تعلیل کے لئے ہے، حاصل کلام یہ ہے کہ ہم نے عالم کو آپ کی خاطر ظاہر کیا، اس کا یہ معنی اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں بیان ہوا ہے کہ (اے حبیب! اگر آپ نہ ہوتے تو میں اس کائنات کو پیدا نہ کرتا۔‘‘

آلوسي، تفسير روح المعاني، 26: 129

معلوم ہوا کہ مفسرین اور دیگر ائمہ نے اس روایت پر اعتماد کیا ہے۔ الفاظ میں فرق تو ہوسکتا ہے لیکن معناً یہ روایت بالکل درست ہے، نور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اوّلیت تخلیق کے حوالے سے ذخیرۂ کتب احادیث میں کئی روایات ملتی ہیں۔ علامہ عجلونی (1162ھ) نے مذکورہ بالا روایت کے بارے میں لکھا ہے۔

و أقول لکن معناه صحيح و إن لم يکن حديثا.

’’میں کہتا ہوں کہ اگر یہ حدیث نہ بھی ہو تو بھی یہ روایت معنًا صحیح ہے۔‘‘

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تخلیق کے باب میں یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ ائمۂِ عقائد کے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور کی (تخلیق کے اعتبار سے پوری کائنات پر) حقیقی اوّلیت ہر قسم کے شک و شبہ اور اختلاف سے بالاتر ہے۔

عجلوني، کشف الخفاء، 2: 214، رقم: 3123

وہ ائمہ جو عقائد میں سند کا درجہ رکھتے ہیں جن کی عمریں توحید اور شرک کا صحیح مفہوم سمجھانے میں صرف ہوئیں وہ بھی اس بات کے قائل ہیں کہ نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے پہلے تخلیق کیا گیا انہی ائمہ میں سے ایک امام ابو الحسن اشعری ہیں جو عقائد میں امام علی الاطلاق ہیں، حدیث نور کی شرح میں فرماتے ہیں:

اﷲ تعالي نور، کالأنوار، والرّوح النّبوية القدسية لمعة من نوره والملئکة شرر تلک الأنوار، وقال صلي الله عليه وآله وسلم أوّل ما خلق اﷲ نوري ومن نوري خلق کل شئ.

’’اللہ تعالیٰ اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روحِ مقدّسہ اسی نور کی ایک چمک ہے اور فرشتے انہی انوار کا پرتو ہیں۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے میرا نور پیدا کیا اور باقی ہر چیز میرے نور سے پیدا کی۔‘‘

فاسي، مطالع المسّرات: 265

ائمہ کاملین اور اجل محدثین و مفسرین کرام نے تخلیقِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے مروی احادیث کو قبول کر کے اپنی گراں قدر تصانیف میں جگہ دی ہے اور پھر ان کی تشریح و تعبیر کر کے یہ ثابت کیا کہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام مخلوقات سے نہ صرف افضل و برتر ہیں بلکہ وجہ تخلیقِ کائنات بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں یعنی کائنات کو وجود میں لانے کا واسطہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ٹھہرے، بقول مولانا ظفر علی خان

گر ارض و سما کی محفل میں لَولَاکَ لَمَا کا شور نہ ہو
یہ رنگ نہ ہو گلزاروں میں یہ نور نہ ہو سیاروں میں

مولانا ظفر علی خان

تخلیقِ کائنات میں واسطۂِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک نعتیہ شعر میں اعلیٰ حضرت محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے کتنی خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں۔

وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو
جان ہیں وہ جہان کی جان ہے تو جہان ہے

احمد رضا خان، حدائق بخشش، 1: 62

مزید وضاحت کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی کتاب ’وسائط الشرعیہ‘ ملاحظہ کیجیے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔