مسجد و مدرسہ کو چندہ دینے کا شرعی حکم کیا ہے؟


سوال نمبر:4703
کیا فرماتے ہیں علماء دین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ کیا کوئی آیت مسجد شریف اور مدرسہ کو چندہ دینا پر دلالت کرتی ہے؟ نیز علماء اور صوفیائے کرام کو ہدیہ و نذرانہ دینا کیا ہے؟

  • سائل: سید نثار بخاریمقام: شیندرہ، پونچھ، جموں و کشمیر، ہندوستان
  • تاریخ اشاعت: 28 اگست 2018ء

زمرہ: مسجد کے احکام و آداب

جواب:

اوائلِ اسلام میں مساجد اسلامی حکومت کے زیرِ انتظام تھیں۔ رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرتِ مدینہ کے بعد مسجدِ نبوی تعمیر کروائی اور اس میں نمازِ پنجگانہ و جمعہ کے اجتماع کا اہتمام کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود نماز کی امامت فرماتے اور خطبہ دیتے۔ ضروریاتِ مسجد کا تمام انتظام و انصرام مسلمانوں کے نظمِ اجتماعی کے سپرد تھا۔ جب اسلامی سلطنت پھیل گئی اور مساجد زیادہ ہوئیں تو مختلف جگہوں پر آپ کے مقرر کردہ ذمہ دار امامت و خطبہ جمعہ کا اہتمام کرنے لگے۔ خلافتِ راشدہ کے زمانے میں بھی یہی طریقہ رائج رہا۔ بنو امیہ کے دور تک مساجد کا انتظام اسلامی حکومت کے سپرد تھا اور مسجد کا منبر حکمرانوں کے پاس رہا۔ جب رسمی خلافت کی جگہ بھی ملوکیت نے لے لی تو دھونس سے اقتدار پر قابض ہونے والے حکمران لوگوں سے خوف زدہ ہوگئے کیونکہ وہ مسجد میں آتے تو انہیں لوگوں کی تنقید اور رد عمل کا سامنا کرنا پڑتا۔ اس خوف کی وجہ سے انہوں نے منبر کو چھوڑدیا اور مساجد کے انتظام و انصرام سے ہاتھ کھنیچ لیا۔ جب حکمرانوں نے امامت و منبر کو چھوڑا تو دین کا درد رکھنے والے علماء نے اس کو سنبھال لیا اور عام مسلمانوں کی مدد سے مساجد کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اس کے بعد سے مساجد کا انتظام و انصرام اور تدریس و عبادات علماء، صوفیاء اور دریشوں کے ہاتھ میں ہے اور اہلِ ثروت مسلمان انہیں مالی تعاون فراہم کرتے ہیں۔

برِصغیر پاک و ہند میں خاص طور پر 1857ء کی جنگِ آزاد کے بعد حکمران برطانوی سامراج نے مساجد کو ویران کرنے کی کوشش کی تو یہی علماء اور صوفیاء آگے بڑھے‘ انہوں نے مساجد و مکاتب کو آباد کیا اور صاحبِ حیثیت مسلمانوں نے انہیں مالی اعانت کی۔ اِن دونوں طبقوں کے ‘جہاد بالنفس‘ اور ’جہاد بالمال‘ کی بدولت فروغ و اشاعتِ دین کا کام جاری ہے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں ہی اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَأَنفِقُوا مِمَّا جَعَلَكُم مُّسْتَخْلَفِينَ فِيهِ فَالَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَأَنفَقُوا لَهُمْ أَجْرٌ كَبِيرٌO

اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لاؤ اور اس (مال و دولت) میں سے خرچ کرو جس میں اس نے تمہیں اپنا نائب (و امین) بنایا ہے، پس تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے خرچ کیا اُن کے لئے بہت بڑا اَجر ہے۔

الْحَدِيْد، 57: 7

اللہ تعالیٰ نے مساجد تعمیر کرنے اور آباد کرنے والوں کو ہدایت یافتہ قرار دیا ہے۔ ارشاد ہے:

إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّهَ فَعَسَى أُولَئِكَ أَنْ يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَo

اللہ کی مسجدیں صرف وہی آباد کر سکتا ہے جو اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان لایا اور اس نے نماز قائم کی اور زکوٰۃ ادا کی اور اللہ کے سوا (کسی سے) نہ ڈرا۔ سو امید ہے کہ یہی لوگ ہدایت پانے والوں میں ہو جائیں گے۔

التَّوْبَة، 9: 18

مساجد کے ساتھ مدارس بھی چونکہ تدریس و اشاعتِ دین کے مراکز ہیں اس لیے وہ بھی اِسی حکم میں داخل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے نیکی اور بھلائی کے کاموں میں تعاون کرنے کا حکم دیا ہے۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:

مَنْ بَنَی مَسْجِدًا لِلَّهِ، بَنَی اللهُ لَهُ فِی الْجَنَّةِ مِثْلَه.

جو شخص اللہ کے لیے جس طرح کی مسجدبنائے گا، اللہ اسے جنت میں اس جیساگھر بنا کر دے گا۔

مسلم، الصحيح، كتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب فضل بناء المساجد والحث عليها، 1: 378، رقم: 533، دار إحياء التراث العربي

درج بالا آیت و روایت سے مساجد و مدارس کی تعمیر میں تعاون کرنے کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ اگرچہ اہلِ ثروت مساجد و مدارس کی تعمیر و آبادکاری میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں‘ تاہم ہماری دانست میں مسلمان اکثریتی ممالک کے اندر مساجد و درس گاہوں کا انتظام حکومت کے ہاتھ میں ہونا چاہیے۔ اس سے سماج کے اندر مسجد و مدرسہ کا کردار بڑھے گا اور فرقہ واریت و تعصب میں کمی واقع ہوگی۔

آپ کے سوال کے دوسرے حصے کا جواب یہ ہے کہ علماء اور صوفیاء کو ہدیہ یا نذرانہ دینا شرعی ضرورت ہے نہ شرعاً ممنوع ہے۔ یہ مباح عمل ہے۔ اگر کوئی شخص کسی بزرگ کو اس کی خدمات پر اپنی طرف سے ہدیہ (تحفہ) پیش کرتا ہے تو اسے ممنوع کیونکر قرار دیا جاسکتا ہے؟ البتہ علماء و صوفیاء کو ان چیزوں سے بالاتر ہو کر اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے دین کی خدمت کرنی چاہیے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری