اگر نماز میں‌ تعدیل ارکان نہیں‌ کی تو کیا سجدہ سہو کرنا ضروری ہے؟


سوال نمبر:4520
السلام علیکم! تعدیل ارکان حنفیہ کے نزدیک واجب ہے؟ اگر کوئی مصلی تعدیل ارکان چھوڑ دے تو نماز ہو گی یا سجدۂ سہو کرنا ضروری ہوگا؟ مفتیٰ بہ قول کیا ہے؟ اگر کوئی کسی کو روپے ھدیہ دے کہ اس سے کپڑا خریدنا تو وہ اس پیسے کو دوسرے کام میں لگا سکتا ھے یا نہیں؟

  • سائل: محمد عظیم اللہمقام: دیوبند، ہندوستان
  • تاریخ اشاعت: 23 دسمبر 2017ء

زمرہ: نماز  |  نماز کے واجبات

جواب:

تعدیل ارکان سے مراد ہے کہ ارکان نماز کو اطمینان سے ادا کیا جائے کیونکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جلد بازی میں پڑھی ہوئی نماز کو نماز ہی شمار نہیں کیا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

أَنَّ رَسُولَ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَدَخَلَ رَجُلٌ، فَصَلَّی، فَسَلَّمَ عَلَی النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم فَرَدَّ وَقَالَ: ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّکَ لَمْ تُصَلِّ، فَرَجَعَ یُصَلِّي کَمَا صَلَّی، ثُمَّ جَاءَ، فَسَلَّمَ عَلَی النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلمچ فَقَالَ: ارْجِعْ فَصَلِّ، فَإِنَّکَ لَمْ تُصَلِّ ثَلَاثًا، فَقَالَ: وَالَّذِي بَعَثَکَ بِالْحَقِّ مَا أُحْسِنُ غَیْرَهُ، فَعَلِّمْنِي، فَقَالَ: إِذَا قُمْتَ إِلَی الصَّلَاةِ فَکَبِّرْ ثُمَّ اقْرَأْ مَا تَیَسَّرَ مَعَکَ مِنَ الْقُرْآنِ ثُمَّ ارْکَعْ حَتَّی تَطْمَئِنَّ رَاکِعًا، ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّی تَعْدِلَ قَائِمًا، ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّی تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا، ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّی تَطْمَئِنَّ جَالِسًا، وَافْعَلْ ذَلِکَ فِي صَلَاتِکَ کُلِّهَا.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے تو ایک آدمی بھی داخل ہوا اور اس نے نماز پڑھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب دے کر فرمایا: واپس جا کر نماز پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی، وہ واپس گیا اور اسی طرح نماز پڑھ کر حاضر ہوا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں سلام عرض کیا۔ فرمایا کہ واپس جاکر نماز پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔ تین مرتبہ فرمایا۔ وہ عرض گزار ہوا۔ قسم اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا، مجھے اس سے بہتر نہیں آتی، لہٰذا سکھا دیجئے۔ فرمایا کہ جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو تکبیر کہو۔ پھر قرآن مجید سے جو تمہیں آتا ہو وہ پڑھو۔ پھر اطمینان کے ساتھ رکوع کرو۔ پھر سر اٹھا کر سیدھے کھڑے ہو جائو۔ پھر اطمینان کے ساتھ سجدہ کرو۔ پھر سر اٹھائو تو اطمینان سے بیٹھ جائو اور ساری نماز میں اسی طرح کرو۔

  1. بخاري، الصحیح، 1: 263، رقم: 724، بیروت، لبنان: دار ابن کثیر الیمامة
  2. مسلم، الصحیح، 1: 298، رقم: 397، بیروت، لبنان: دار احیاء التراث العربي

ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لَا تُجْزِیُٔ صَلَاةُ الرَّجُلِ حَتَّی یُقِیمَ ظَهْرَهُ فِي الرُّکُوعِ وَالسُّجُودِ.

کسی آدمی کی نماز اس وقت تک قبول نہیں ہوتی جب تک کہ وہ رکوع اور سجدے میں اپنی کمر کو سیدھا نہ کرے۔

  1. أبي داود، السنن، 1: 226، رقم: 855، دار الفکر
  2. ترمذي، السنن، 2: 51، رقم: 265، بیروت، لبنان: دار احیاء التراث العربي

مذکورہ بالا احادیث مبارکہ میں ارکانِ نماز کو اطمنان سے ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ مفتیٰ بہِ قول تو یہ ہے کہ تعدیلِ ارکان واجب ہے۔ اس لیے اگر کوئی شخص بھول کر نماز کا کوئی رکن اطمنان سے ادا نہ کر پائے تو سجدہ سہو کرنے سے نماز ہو جائے گی، تاہم جان بوجھ کر کوئی رکن ٹھیک سے ادا نہیں کیا تو نماز لوٹانا ضروری ہے۔

آپ نے وضاحت نہیں کی کہ ہدیہ کونسا ہے؟ ہمارے خیال میں اس کی دو ممکنہ صورتیں ہیں: اگر کسی شخص کو ہدیہ دیا گیا اور اس کی مد مخصوص نہیں کی گئی کہ کس مقصد کے لیے خرچ کرنا ہے، بلکہ رسمی طور پر کہا کہ اس سے اپنی ضرورت کی اشیا لے لینا، کھانا کھا لینا، کپڑا لے لینا تو وہ شخص کسی بھی مد میں اس رقم کو خرچ کر سکتا ہے۔ لیکن اگر کسی نے ہدیہ دیا اور ساتھ تخصیص کر دی کہ اس کو فلاں مقصد کے لیے ہی خرچ کرنا ہے تو پھر ہدیہ کرنے والے کی ہدایت کے مطابق ہی خرچ کیا جائے گا۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری