کیا خواتین عبادات کیلئے حیض مؤخر کرنے کی دواء استعمال کرسکتی ہیں؟


سوال نمبر:4506
کیا عورت رمضان المبارک کے تمام روزے رکھنے کی نیت سے یا حج اور عمرہ پر جانے کی وجہ سے حیض کو بذریعہ دوائی کچھ دنوں کے لیے روک سکتی ہے؟ کیا ایسی صورتحال میں عورت کو عبادت کا ثواب ملے گا؟ قرآن و سنت کی روشنی میں راہنمائی فرمائیں۔

  • سائل: عبدالقدیرمقام: چکوال
  • تاریخ اشاعت: 03 نومبر 2017ء

زمرہ: حیض

جواب:

حیض کو روکنا ایک غیر فطری عمل ہے اس لیے اس میں نقصان کا خطرہ لازم ہے۔ حیض میں اللہ تعالیٰ نے بنات آدم کے لیے کچھ حکمتیں رکھی ہیں‘ اس کو روکنے کی صورت میں ان حکمتوں کے ختم ہونے کا بھی اندیشہ رہتا ہے۔ حیض کو روکنے یا مؤخر کرنے کی ادویات اور علاج زمانہ نبوی میں بھی موجود تھے مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی ایسا کرنے کی ترغیب نہیں دی۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی ایسا کرنے سے روکا بھی نہیں ہے۔ اس لیے ایسی ادویات جن سے نقصان کا اندیشہ نہ ہو‘ ڈاکٹر کے مشورے سے حج و عمرہ کے مبارک سفر میں استعمال کی جاسکتی ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے جب پوچھا گیا: ’’کیا عورت ایسی دوا استعمال کر سکتی ہے جس کی وجہ سے وہ واپسی تک حیض سے محفوظ رہے؟‘‘

انہوں نے فرمایا:

’میں اس میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتا۔‘ پھر فرمایا: ’اس سلسلہ میں پیلو کا پانی مفید ہوتا ہے۔‘

اگر کسی عورت نے رمضان المبارک کے روزے رکھنے کے لیے حیض روکنے کی ادویات کھائیں اور حیض نہیں آیا تو اس پر پاکی کے احکام لاگو ہوں گے، اس کے روزے صحیح ہیں‘ ان کی قضاء نہیں کی جائے گی۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔