کیا طلاقِ کنایہ کے بعد مشروط طلاق واقع ہوگی؟


سوال نمبر:4494
السلام علیکم! ایک شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ ’تیری جو سمجھ میں آئے کر میرے سے کوئی تعلق نہیں‌ ہے‘ اس کے 2 منٹ‌ کے بعد اسی مجلس میں شوہر نے بیوی کو مشروط طور پر تین طلاق دیں۔ سوال یہ ہے کہ شرط پائے جانے پر یہ تین طلاق واقع ہو جائیں گی یا کنایہ کے الفاظ سے طلاق واقع ہوگئی؟

  • سائل: ایم۔ بی انصاریمقام: بھارت
  • تاریخ اشاعت: 04 نومبر 2017ء

زمرہ: تعلیق طلاق  |  طلاق کنایہ

جواب:

طلاق کے لیے کنایہ ایسا لفظ ہوتا ہے جس میں طلاق کا معنیٰ بھی پایا جاتا ہے اور کوئی دوسرا معنیٰ بھی مراد لیا جاسکتا ہے، جیسے شوہر بیوی سے کہے کہ تم اپنے گھر چلی جاؤ یا اب اِس گھر میں تمھاری کوئی جگہ نہیں یا تم مجھ سے الگ ہو جاؤ یا پھر جو جملہ آپ کے سوال میں ہے کہ ’تیری جو سمجھ میں آئے کر میرے سے کوئی تعلق نہیں‌ ہے‘۔ کنایہ کے الفاظ کے لیے فقہائے اسلامیہ کا اصول ہے کہ:

الکنايات لا يقع الطلاق اِلا بالنية أو بدلالة الحال.

’’کنایات سے صرف نیت ہو یا دلالت حال تو طلاق واقع ہو گی۔‘‘

  1. برهان الدين علي المرغيناني، الهداية شرح البداية، 1: 231
  2. الشيخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاوی الهندية، 1: 373، دار الفکر

آپ کے سوال میں چند پہلو وضاحت طلب ہیں، تاہم آپ کے الفاظ سے جو کچھ ہم سمجھ پائے ہیں اس کی بنیاد پر ہماری اس مسئلہ میں رائے یہ ہے کہ آپ کا جملہ ’تیری جو سمجھ میں آئے کر میرے سے کوئی تعلق نہیں‌ ہے‘ طلاق کی دلالت کر رہا ہے کیونکہ اس کے دو منٹ بعد ہی وہ شخص اپنی بیوی کو مشروط طلاق دے رہے ہیں۔ اس لیے کنایہ کے الفاظ سے طلاقِ بائن واقع ہوگئی اور ان کا نکاح ختم ہوگیا۔ اس لیے مشروط طلاقِ ثلاثہ واقع نہیں ہوگی۔ اگر وہ رجوع کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے تجدید نکاح ضروری ہے۔

آپ نے واضح نہیں کیا کہ مذکورہ شخص نے طلاقِ ثلاثہ کے لیے کیا شرط رکھی اور نہ ہی یہ بتایا ہے کہ اس شرط کے الفاظ کیا تھے۔ اگر شوہر نے مشروط طلاق دیتے ہوئے بیوی سے کہا کہ ’آئندہ یہ شرط پائی گئی تو تمہیں تین طلاق‘۔ یہ شرط اس وقت لاگو ہوگی جب تجدید نکاح کے بعد بیوی دوبارہ نکاح میں ہوگی، اگر تجدید نکاح نہیں کیا جاتا تو یہ مشروط طلاق محض لغو ہے۔ اگر تجدید نکاح کے ساتھ ان کا رجوع ہو جاتا ہے اور اس کے بعد شرط پائے جانے پر یہ تین طلاق واقع ہو جائیں گی۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی