کیا طلاقِ رجعی سے نکاح‌ ختم ہوجاتا ہے؟


سوال نمبر:4309
السلام علیکم مفتی صاحب! میں سعودی عرب میں ہوں۔ میرا ایک دن بیوی سے جھگڑا ہوا جو شدت اختیار کر گیا۔ غصے میں میری زبان سے نکل گیا کہ ’میں‌ نے تجھے طلاق دی‘۔ حالانکہ میرا طلاق دینے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ راہنمائی فرما دیں‌ کہ کیا اس سے ہمارا نکاح‌ ختم ہوگیا ہے؟ کیا ایک بار طلاق دینے سے نکاح‌ ختم ہو جاتا ہے؟

  • سائل: عاطف توقیرمقام: گجرات
  • تاریخ اشاعت: 24 جولائی 2017ء

زمرہ: طلاق  |  طلاق رجعی

جواب:

غصے کی تین حالتیں ہیں :

  1. أحدها أن يحصل له مبادی الغضب بحيث لايتغير عقله ويعلم مايقول ويقصده وهذا لا اشکال فيه.

  2. الثانی أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده، فهذا لاريب أنه لاينفذ شئی من اقواله.

  3. الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر کالمجنون فهذا محل النظر والأدلة تدل علی عدم نفوذ أقواله.

  1. پہلی یہ کہ ابتدائی حال ہو، عقل میں تبدیلی نہ آئے اور آدمی جانتا ہو کہ کیا کہہ رہا ہے اور کس کا ارادہ ہے اس میں اشکال نہیں کہ طلاق ہو جائے گی۔
  2. دوسرا درجہ یہ ہے کہ غصہ انتہا کو پہنچ جائے اسے پتہ نہ چلے کہ کیا کہتا ہے اور کیا ارادہ ہے اس صورت میں بلاشبہ ا س کا کوئی محل نافذ نہ ہو گا۔
  3. تیسرا درجہ یہ ہے کہ دونوں کے درمیان ہو کہ انسان پاگل کی طرح نہ ہو جائے یہ قابل غور ہے دلائل کی روشنی میں اس صورت میں بھی اس کی کسی بات کا اعتبار نہ ہوگا۔

(ابن عابدين، ردالمحتار، 3 : 244، دارلفکرللطباعةوالنشر، بيروت، سن اشاعت 1421)

مايزيل العقل فلايشعرصاحبه بماقال وهذالايقع طلاقه بلانزاع.

مايکون فی مبادية بحيث لايمنع صاحبه من تصورمايقول وقصده فهذايقع طلاقه.

أن يستحکم ويشتد به فلا يزيل عقله بالکلية ولکن يحول بينه و بين نيته بحيث يندم علی ما فرط منه اذا زال فهذا محل نظر و عدم الوقوع فی هذه الحالة قوی متجه.

ایک یہ کہ غصہ اتنا زیادہ ہوکہ عقل انسانی قائم نہ رہے اورپتہ ہی نہ ہوکہ اس نے کیا کہا اس صورت میں بلا اختلاف تمام فقہاء کے نزدیک طلاق واقع نہیں ہوتی۔

دوسراغصہ ابتدائی درجہ کا ہے کہ انسان جو کہہ رہا ہوتا ہے وہ پوری طرح سمجھتا ہے اس میں طلاق ہو جاتی ہے۔

تیسرا درمیانہ درجہ کا غصہ ہے جو سخت ہوتا ہے اور وہ انسان کی عقل پر غالب آ جاتا ہے مگر انسانی عقل قائم رہتی ہے لیکن دل کی نیت و ارادہ کے بغیر محض شدتِ غصہ سے طلاق سرزد ہو جاتی ہے، وہ اپنے آپ پر قابو نہیں پا رہا ہوتا پھر طلاق سرزد ہونے کے بعد نادم ہوتا ہے۔ افسوس کرتا ہے۔ یہ صورت غور طلب ہے۔ اس حالت میں قوی اور معقول بات یہ ہے کہ طلاق نہ ہوگی۔

(ابن قيم، زاد المعاد، 5 : 215، مؤسسة الرسالة، مکتبة المنار، بيروت الکويت، سن اشاعت، 1407ه)

اگر آپ کا غصہ ابتدائی درجے کا تھا اور آپ کو معلوم تھا کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں تو آپ کے الفاظ ’میں‌ نے تجھے طلاق دی‘ سے ایک طلاق واقع ہو گئی ہے۔ اس صورت میں آپ کا نکاح ختم نہیں ہوا، آپ دورانِ عدت بغیر نکاح کیے رجوع کر سکتے ہے۔ اگر آپ میاں بیوی کی صلح ہوجاتی ہے تو طلاق کا اثر ختم ہوجائے گا‘ لیکن آپ کے پاس آئندہ صرف دو طلاقوں کا حق باقی ہوگا۔

اگر حالت اس کے برعکس تھی یعنی آپ کا غصہ شدت اختیار کر گیا تھا طلاق دینے کی نیت اور ارادہ بھی نہیں تھا محض شدتِ غصہ سے آپ نے یہ الفاظ ادا کر دیے تو طلاق واقع نہیں ہوئی۔ توبہ کریں اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا خدا تعالیٰ سے وعدہ کریں۔ یہ فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ آپ غصے کی کس کیفیت میں تھے، اسی کے مطابق طلاق کا حکم ہوگا۔ غصے کی حالت میں دی جانے والی طلاق کے بارے میں مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے: غصے کی طلاق کا کیا حکم ہے؟

ایک طلاق دینے سے ’طلاقِ رجعی‘ واقع ہوتی ہے۔ طلاقِ رجعی کا حکم یہ ہے کہ عدّت (تین حیض کی مدت یا بیوی کے حاملہ ہونے کی صورت میں بچے کی پیدائش سے پہلے) تک بیوی بدستور شوہر کے نکاح میں رہتی ہے۔ دورانِ عدت شوہر کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ چاہے بیوی سے رُجوع کرسکتا ہے۔ ’رُجوع‘ کا مطلب ہے کہ یا تو زبان سے کہہ دے کہ میں نے طلاق واپس لے لی یا میاں بیوی کی صلح ہوجائے۔ اس صورت میں انہیں زوجیت کا تعلق قائم کرنے کے لیے نئے نکاح کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لیکن اگر عدّت گزرگئی اور شوہر نے اپنے قول یا فعل سے رُجوع نہیں کیا تو ان کا نکاح ختم ہو جائے گا اور عورت کو حق ہوگا کہ وہ جہاں چاہے نکاح کرسکتی ہے۔ اگر سابقہ شوہر سے مصالحت ہو جائے تو اس سے بھی دوبارہ نکاح کرسکتی ہے۔ دورانِ عدت رُجوع کر لینے سے یا تجدیدِ نکاح سے اگرچہ طلاق کا اثر ختم ہوجاتا ہے، لیکن شوہر کے پاس صرف باقی ماندہ طلاقوں حق رہ جاتا ہے۔ شوہر کو کل تین طلاقوں کا اختیار حاصل تھا، اگر اس نے ایک رجعی طلاق دی ہے تو اس کے پاس دو طلاقوں کا حق باقی رہ گیا۔ طلاقِ رجعی کی عدت کے دوران شوہر بغیر نکاح کے رجوع کر سکتا تھا، مدت گزر گئی تو رجوع کے لیے نیا نکاح کرے گا‘ لیکن طلاق ایک ہی رہے گی اور اسے دو کا حق حاصل رہے گا۔ طلاق رجعی کی عدت گزرنے سے نکاح ختم ہو جاتا ہے، لیکن طلاق میں اضافہ نہیں ہوتا۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔