احکامِ قطعی کے منکر کے ساتھ نکاح کا کیا حکم ہے؟


سوال نمبر:4272
السلام علیکم! اگر کوئی مرد یا عورت جو نماز، روزہ اور زکوٰۃ وغیرہ کا منکر ہو‘ جزا و سزا کا انکاری ہو‘ سود کو جائز سمجھتا ہو اور سود کا لین دین کرتا ہو‘ کیا ایسے شخص کے ساتھ کسی مسلمان کا نکاح‌ جائز ہے؟ ایسے نکاح کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

  • سائل: ثناء اخترمقام: کراچی
  • تاریخ اشاعت: 12 ستمبر 2018ء

زمرہ: نکاح

جواب:

نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کی فرضیت، روزِ محشر اور جزا و سزا کا قیام اور سود کی حرمت نصوصِ قطعی (کلام اللہ و حدیثِ متواترہ) سے ثابت ہے۔ یہ اسلام کے قطعی مُسلِمات ہیں جن کا انکار کفر ہے۔ علامہ علی بن محمد بزدوی حنفی ’الاصول‘ میں لکھتے ہیں:

الفرائض في الشرع مقدرة لا تحتمل زیادة ولا نقصانا، أي مقطوعة ثبت بدلیل لاشبهة مثل الایمان والحج سمیت مکتوبة.

فرائض ، شریعت میں مقرر ہیں جن کی کمی بیشی نہیں ہو سکتی یعنی قطعی ہوتے ہیں اور ایسی دلیل سےثابت ہوتے ہیں کہ جس میں گنجائش نہیں ہوتی ۔جیسے ایمان ، نماز، روزہ ، زکوۃ، حج، ان کو فرض کانام دیا جاتا ہے۔

بزدوی، الاصول، 1: 136، مکتبة جاويد بريس، كراتشي

امام بزدوی فرض کا حکم بیان کرتے ہیں:

فحکمه اللزوم علما و عملا ویکفر جاهده ویفسق ناکره بلا عذر.

فرض کا حکم علمی اور عملی طور پر لازم ہے اور اس کی فرضیت کا انکار کرنے والا کافر جبکہ بغیر عذر ترک کرنے والا فاسق ہے۔

بزدوی، الاصول، 1 :136

ڈاکٹر وھبہ زحیلی نے بھی فرض کا انکار کرنا کفر قرار دیا ہے:

لزوم الاتیان به مع ثواب فاعله و عقاب تارکه ویکفر منکره.

جس کا بجا لانا ضروری اور باعث ثواب ہو اور ترک باعث عذاب اور انکار کفر ہو۔

وهبه زحیلي، الفقه الاسلامي و أدلة، 1 :51، دمشق :دار الفكر سورية

اس لیے اگر مذکورہ مرد یا عورت عاقل و بالغ ہے اور ہوش و حواس میں احکامِ الٰہی کا انکار کرتا ہے اور بار بار سمجھانے پر بھی اس انکار پر قائم رہتا ہے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے اور اس کے ساتھ کسی مسلمان کا نکاح جائز نہیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری