کیا قرآنی واقعات اور اسلامی تعلیمات پر فلمیں‌ بنانا جائز ہے؟


سوال نمبر:4256
السّلام علیکم! حضرت یوسف کی زندگی پر 28 گھنٹوں کی ایک فلم بنائی گئی ہے۔ اس میں حضرت یوسف کے بچپن سے لے کر اس وقت تک کی تفصیل بتائی گئی جب حضرت یوسف حضرت یعقوبؑ سے ۴۰ سال بعد ملے۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ فلم دیکھنا جائز نہیں کیونکہ اس میں‌ حضرت یوسف اور حضرت یعقوبؑ کی اداکاری بھی کی گئی ہے۔ اور کہا جاتا ہے کہ کئی واقعات اس میں غلط بیان کئے گئے ہیں۔ لیکن میں سوچتا ہوں کہ یہ فلم لوگوں کی ہدایت کا بھی ذریعہ ہے۔ دوسرا یہ کہ آج کل ٹی وی پر جو برے پروگرام دکھائے جاتے ہیں ان سے تو یہ فلم اچھی ہی ہے۔ اس وجہ سے میں اپنے چھوٹے بہن بھائی کو یہ فلم ٹی وی پر لگا دیتا ہوں۔ اس طرح وہ ٹی وی کے برے پروگراموں سے بچے رہتے ہیں۔ کیا میں صحیح کرتا ہوں؟ اور کیا یہ فلم دیکھنا جائز ہے؟ اور فلم بنانے والوں کے لئے کیا یہ فلم بنانا جائز ہے؟ اور کیا حضور نبی اکرمؐ کی حیات مبارکہ پر ایسی فلم بنانا جائز ہے جس میں حضورؐ کی اداکاری بھی کی گئی ہو؟ برائے مہربانی، مکمل معلومات بتا دی جئے گا۔ شکریہ۔

  • سائل: اعزاز رانامقام: لاہور، پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 24 جولائی 2017ء

زمرہ: جدید فقہی مسائل  |  معاشرت

جواب:

اسلامی تہذیب و تمدن اور تعلیمات پر فلمیں بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ موجودہ ڈیجیٹل دور اہلِ اسلام سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ نئی نسل تک اسلام کا پیغام پہنچانے کے لیے منبر و محراب کی اہمیت اور حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے جدید خطوط پر کام کریں۔ ہمارے دانست میں اسلامی تاریخ، شخصیات اور معاشرت کو فلمانے میں کوئی حرج نہیں۔ اس کی وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے: کیا انبیاء کرام کی حیات پر فلمیں بنانا اور دیکھنا جائز ہے؟

آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:

  • آپ کا بچوں کو اسلامی فلمیں دیکھانا درست عمل ہے۔
  • ایسی فلمیں اور ڈرامے جو واقعتاً اسلامی تاریخ، اسلامی تہذیب اور تعلیمات کی عکاس ہوں ان کا دیکھنا جائز ہے۔
  • رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات اور اسوہ حسنہ کو فلمانے میں کوئی حرج نہیں، تاہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شبیہ بنائی جائے گی اور نہ ہی اسے پردہ سکرین پر لایا جائے گا، بلکہ باقی کرداروں کی مدد سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسوہ حسنہ اور تعلمیات کو ناظرین تک پہنچایا جائے گا۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری