تکبیر تحریمہ کا ظاہری طریقہ اور باطنی ادب کیا ہے؟


سوال نمبر:425
تکبیر تحریمہ کا ظاہری طریقہ اور باطنی ادب کیا ہے؟

  • تاریخ اشاعت: 26 جنوری 2011ء

زمرہ: عبادات  |  زکوۃ

جواب:

تکبیر تحریمہ کا ظاہری طریقہ درج ذیل حدیث مبارکہ سے ثابت ہے:

حضرت مالک بن حویرث سے مروی ہے کہ

أَنَّه أَ رَى نَبِیَّ اﷲِ  صلی الله عليه وسلم . وَقَالَ حَتّٰی يُحَاذِيَ بِهِمَا فُرُوْعَ أُذْنَيْهِ.

 مسلم، الصحيح، کتاب الصلوة، باب استحباب رفع اليدين، 1:293، رقم: 391

’’انہوں نے (بوقت تکبیر تحریمہ) حضور نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کو کانوں کی لو تک ہاتھ بلند کرتے ہوئے دیکھا۔‘‘

2۔ عورت ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھائے۔ عبداللہ بن زیتون بیان کرتے ہیں:

رأيت أم الدرداء رضي اﷲ عنها ترفع کفيها حذو منکبيها حين تفتتح الصلة.

 ابن ابی شيبة، المصنف، 1: 216، رقم: 2470

’’میں نے حضرت ام درداء رضی اﷲ عنہا کو نماز شروع کرتے وقت ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے ہوئے دیکھا۔‘‘

3۔ حضرت وائل بن حجر ص سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

إِذَا صَلَّيْتَ فَاجْعَلْ يَدَيْکَ حِذَاءَ أُذْنَيْکَ وَالْمَرْأَةُ تَجْعَلْ يَدَيْهَا حِذَاءَ ثَدْيَيْهَ.

 هيثمی، مجمع الزوائد، 2: 103

’’جب تم نماز پڑھو تو اپنے ہاتھ کانوں تک اٹھاؤ اور عورت اپنے ہاتھ سینے تک اٹھائے۔‘‘

باطنی ادب

تکبیر تحریمہ کا باطنی ادب یہ ہے کہ بندہ مادی چیزوں کی کشش و رعنائی سے اپنا دھیان ہٹا لے اور جھوٹی آرزؤں، تمناؤں کے سراب سے باہر نکل کر اپنا قلبی تعلق، محبوب حقیقی کی ذات سے اس حد تک استوار کرلے کہ دنیا کی محبت اور لذت کی کوئی رمق بھی اس کے دل میں باقی نہ رہے، پس اس باطنی ادب کا حق اس وقت تک ادا نہ ہوگا جب تک قرآن حکیم کے اس ارشاد کے مطابق بندے کی طبیعت کا میلان ما سوا سے کٹ کر سراسر ذات باری تعالیٰ کی طرف نہ ہو جائے۔

وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيلًاo

 المزمل، 73: 8

’’اور آپ اپنے رب کے نام کا ذِکر کرتے رہیں اور (اپنے قلب و باطن میں) ہر ایک سے ٹوٹ کر اُسی کے ہو رہیںo‘‘

مندرجہ بالا آیت کریمہ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر اس قدر کثرت و تواتر کے ساتھ کیا جائے کہ وہ وظیفہ حیات بن جائے اور اسے ورد زبان کرنے سے تھکن، ماندگی اور بیزاری کے آثار ایک لمحہ کے لیے بھی طبیعت میں پیدا نہ ہوں بلکہ اس کی یاد بندے کے دل میں اس حد تک جاگزیں ہو جائے کہ پھر کبھی بھولے سے بھی غیر اللہ کا خیال اس کے دل میں نہ آسکے۔

حکایت ہے کہ کسی نے حضرت شیخ ذو النون مصری رحمۃ اللہ علیہ سے نماز کی امامت کے لیے کہا، انہوں نے بہت پس وپیش کیا لیکن لوگوں کے بڑھتے ہوئے اصرار کو دیکھ کر مصلی پر کھڑے ہوگئے ابھی تکبیر تحریمہ کے لیے اَﷲُ اَکْبَرُ کہا ہی تھا کہ بے ہوش ہو کر گر پڑے اور کافی دیر تک اسی حالت میں پڑے رہے۔

گویا اس مرد حق نے ابھی زبان سے اللہ کی کبریائی کااقرار کیا ہی تھا کہ الوہی عظمت و جبروت کا نظارہ کر گیا، زبان سے اللہ کی عظمت و بزرگی کا اظہار کرنا تو آسان ہے لیکن لوح دل پر اس کی عظمت و کبریائی کا نقش کر لینا گویا جان سے گزر جانا ہے۔

پس تکبیر تحریمہ کے باطنی ادب میں ڈوب کر جب بندہ خود کو ربِ کائنات کے حضور پیش کرتا ہے تو اسے توکل و استغنا کی وہ دولت نصیب ہو جاتی ہے جس کی بدولت دنیا و ما فیھا کی ہر چیز اس کی نظر میں ہیچ اور بے وقعت ہو جاتی ہے اور غیر اللہ پر اس کا اعتماد جاتا رہتا ہے اور نتیجتاً اس کے دل سے دنیا کا ہر خوف نکل جاتا ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔