گناہو‌ں‌ سے پاک ہونے کے لیے کیا عمل کیا جائے؟


سوال نمبر:4193
السلام علیکم! وہ کونسا ایسا نیک عمل ہے جو مرنے سے پہلے کر لیا جائے تو آدمی تمام گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے؟

  • سائل: ایم ایچ قادریمقام: یو کے
  • تاریخ اشاعت: 20 اپریل 2017ء

زمرہ: متفرق مسائل

جواب:

اسلام نے انسانی تخلیق کے جس مقصد سے ہمیں آشنا کروایا ہے، وہ اپنے خالق اور پروردگار کی ’عبادت‘ ہے۔ پروردگار اپنے بندوں سے اصلاً جو کچھ چاہتا ہے، وہ یہی ہے۔قرآنِ مجید میں اللہ اسی حقیقت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ:

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِO

اور میں نے جنّات اور انسانوں کو صرف اسی لئے پیدا کیا کہ وہ میری بندگی اختیار کریں۔

الذَّارِيَات، 51: 65

اللہ تعالیٰ نے اسی مقصدِ تخلیق کی یاد دہانی کے لیے انسانوں میں اپنے پیغمبر مبعوث فرمائے، جو انہیں اس حقیقت سے آگاہ کرتے رہے۔

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولاً أَنِ اعْبُدُواْ اللّهَ وَاجْتَنِبُواْ الطَّاغُوتَ فَمِنْهُم مَّنْ هَدَى اللّهُ وَمِنْهُم مَّنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلاَلَةُ فَسِيرُواْ فِي الْأَرْضِ فَانظُرُواْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَO

اور بیشک ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ (لوگو) تم اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت (یعنی شیطان اور بتوں کی اطاعت و پرستش) سے اجتناب کرو، سو اُن میں بعض وہ ہوئے جنہیں اللہ نے ہدایت فرما دی اور اُن میں بعض وہ ہوئے جن پر گمراہی (ٹھیک) ثابت ہوئی، سو تم لوگ زمین میں سیر و سیاحت کرو اور دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا۔

النَّحْل، 16: 36

اللہ تعالیٰ نے انہی پیغمبروں کے راستے کو راہِ نجات ان کی پیروی کو کامیابی کو زینہ قرار دیا ہے۔ پیغمبروں کے اس سلسلے کی آخری کڑی سیدنا و حبیبنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ اب قیامت تک ان کے پیش کردہ دین، عقائد، عبادات اور اخلاقیات ہی دنیا و آخرت میں فلاح کا پیمانہ ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلام کے پورے دین کو حدیثِ جبریل میں مکمل وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا دیا ہے۔ چنانچہ سیدنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ:

بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم ذَاتَ يَوْمٍ إِذْ طَلَعَ عَلَيْنَا رَجُلٌ شَدِيْدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ، شَدِيْدُ سَوَادِ الشَّعْرِ، لَا يُرَي عَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ، وَلَا يَعْرِفُهُ مِنَّا أَحَدٌ، حَتَّي جَلَسَ إِلَي النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم، فَأَسْنَدَ رُکْبَتَيْهِ إِلَي رُکْبَتَيْهِ، وَوَضَعَ کَفَّيْهِ عَلَي فَخِذَيْهِ، وَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ! أَخْبِرْنِي عَنِ الإِسْلَامِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : الإِسْلَامُ أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلاَّ اﷲُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اﷲِ وَتُقِيمَ الصَّلاةَ، وَتُؤْتِيَ الزَّکَاةَ، وَ تَصُوْمَ رَمَضَانَ، وَتَحُجَّ الْبَيْتَ إِنِ اسْتَطَعْتَ إِلَيْهِ سَبِيْلًا. قَالَ : صَدَقْتَ. قَالَ : فَعَجِبْنَا لَهُ يَسْأَلُهُ وَيُصَدِّقُهُ! قَالَ : فَأَخْبِرْنِي عَنِ الإِيْمَانِ. قَالَ : أَنْ تُؤْمِنَ بِاﷲِ، وَمَلَائِکَتِهِ، وَکُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَالْيَوْمِ الآخِرِ، وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ. قالَ : صَدَقْتَ. قَالَ : فَأَخْبِرْنِي عَنِ الإِحْسَانِ. قَالَ : أَنْ تَعْبُدَ اﷲَ کَأَنَّکَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تکُنْ تَرَاهُ فإنَّهُ يَرَاکَ. قَالَ : فَأَخْبِرْنِي عَنِ السَّاعَةِ قَالَ : مَا الْمَسْئُوْلُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ. قَالَ : فَأَخْبِرْنِي عَنْ أَمَارَتِهَا؟ قَالَ : أَنْ تَلِدَ الأَمَةُ رَبَّتَهَا، وَأَنْ تَرَي الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ رِعَاءَ الشَّاءِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبُنْيَانِ. ثُمَّ انْطَلَقَ، فَلَبِثْتُ مَلِيّاً، ثُمَّ قَالَ : يَا عُمَرُ أَتَدْرِي مَنِ السَّائِلُ؟ قُلتُ : اﷲُ وَرَسُوْلُهُ أَعْلَمُ. قَالَ : فَإِنَّهُ جِبْرِيْلُ أَتَاکُمْ يُعَلِّمُکُمْ دِيْنَکُمْ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ.

ایک روز ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے۔ اچانک ایک شخص ہماری محفل میں آیا، اس کے کپڑے نہایت سفید، بال گہرے سیاہ تھے، اس پر سفر کے کچھ بھی اثرات نمایاں نہ تھے اور ہم میں سے کوئی اسے پہچانتا بھی نہیں تھا۔ بالآخر وہ شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھٹنے سے گھٹنے ملا کر بیٹھ گیا اور اس نے دونوں ہاتھ اپنی دونوں رانوں پر رکھ لیے اور عرض کیا : یا محمد مصطفی! مجھے بتائیں : اسلام کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اسلام یہ ہے کہ تو اس بات کی گواہی دے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے رسول ہیں اور تو نماز قائم کرے، زکوٰۃ ادا کرے، رمضان المبارک کے روزے رکھے اور استطاعت رکھنے پر بیت اللہ کا حج کرے۔ اس نے عرض کیا : آپ نے سچ فرمایا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں تعجب ہوا کہ خود ہی سوال کرتا ہے اور خود ہی تصدیق بھی کرتا ہے۔ اس کے بعد اس نے عرض کیا: مجھے ایمان کے بارے میں بتائیں؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایمان یہ ہے کہ تو اللہ تعالیٰ پر، فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر اور قیامت کے دن پر ایمان لائے اور اچھی بری تقدیر پر ایمان رکھے۔ وہ بولا: آپ نے سچ فرمایا۔ پھر اس نے عرض کیا: مجھے احسان کے بارے میں بتائیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : احسان یہ ہے کہ تو اللہ عزوجل کی عبادت اس طرح کرے گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو اسے نہ دیکھ سکے تو یہ جان لے کہ یقینا وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ اس نے عرض کیا : اچھا اب مجھے (وقوعِ) قیامت کے (وقت کے) بارے میں بتائیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس سے سوال کیا گیا ہے وہ اس مسئلہ پر سائل سے زیادہ علم نہیں رکھتا (یعنی جو کچھ مجھے معلوم ہے وہ تمہیں بھی معلوم ہے اور دوسرے حاضرین کے لئے اسے ظاہر کرنا مفید نہیں ہے۔) اس شخص نے عرض کیا: اچھا پھر قیامت کی علامات ہی بتا دیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علاماتِ قیامت یہ ہیں کہ نوکرانی اپنی مالکہ کو جنم دے گی (یعنی بیٹی ماں کے ساتھ نوکرانیوں والا سلوک کرے گی) اور برہنہ پاؤں اور ننگے بدن والے مفلس چرواہے اونچے اونچے محلات پر فخر کریں گے۔ پھر وہ شخص چلا گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں کچھ دیر ٹھہرا رہا، پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے عمر! جانتے ہو یہ سوال کرنے والا کون تھا؟ میں نے عرض کیا : اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ جبرائیل علیہ السلام تھے جو تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے تھے۔‘‘

  1. بخاري، الصحيح، کتاب: الإيمان، باب: سُؤَالِ جِبْرِيْلَ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم عَنِ الإِيْمان وَ الإِسْلَامِ وَ الإِحْسَانِ وَ عِلْمِ السَّاعَةِ، 1 / 27، الرقم: 50
  2. مسلم، الصحيح، کتاب: الإيمان، باب: بيان الإيمان والإسلام والإحسان، 1 / 36، الرقم: 8 - 9
  3. ترمذي، السنن، کتاب: الإيمان عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب: ماجاء في وصف جبريل للنبي صلي الله عليه وآله وسلم الإيمان والإسلام، 5/ 6، الرقم: 2601

اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلام کی تمام ایمانیات، عبادات اور اعتقادیات مکمل وضاحت فرما دی ہے۔ اب انہی تعلیمات پر عمل کرنا کامیابی کو ذریعہ ہے اور یہی گناہوں سے پاک ہونے کا طریقہ ہے۔

گناہوں سے پاک ہونے کا دوسرا طریقہ توبہ کو قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشادِ ربانی ہے:

قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اﷲِط اِنَّ اﷲَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًاط اِنَّهُ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُo

آپ فرما دیجیے: اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر لی ہے، تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، بے شک اللہ سارے گناہ معاف فرما دیتا ہے، وہ یقینا بڑا بخشنے والا، بہت رحم فرمانے والا ہے۔

الزمر، 39: 53

اور حضرت ابو ہریرہg نے نبی کریمa کو فرماتے ہوئے سنا:

مَنْ حَجَّ لِلّٰہِ فَلَمْ يَرْفُثْ وَلَمْ يَفْسُقْ رَجَعَ کَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ۔

جو رضائے الٰہی کے لیے حج کرے جس میں نہ کوئی بیہودہ بات ہو اور نہ کسی گناہ کا ارتکاب۔ وہ ایسے لوٹے گا جیسے اس کی ماں نے ابھی جنا ہو۔

1۔ بخاري، الصحیح، 2: 553، رقم: 1449، بیروت، لبنان: دار ابن کثیر الیمامۃ

2۔ مسلم، الصحیح، 2: 983، رقم: 1350، بیروت، لبنان: دار احیاء التراث العربي

ایک روایت میں ہے:

عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضی الله عنه قَالَ قَالَ رَسُولُ اﷲِ يَقُولُ اﷲُ عَزَّ وَجَلَّ مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا وَأَزِيدُ وَمَنْ جَاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَجَزَاؤُهُ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا أَوْ أَغْفِرُ وَمَنْ تَقَرَّبَ مِنِّي شِبْرًا تَقَرَّبْتُ مِنْهُ ذِرَاعًا وَمَنْ تَقَرَّبَ مِنِّي ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ مِنْهُ بَاعًا وَمَنْ أَتَانِي يَمْشِي أَتَيْتُهُ هَرْوَلَةً وَمَنْ لَقِيَنِي بِقُرَابِ الْأَرْضِ خَطِيئَةً لَا يُشْرِکُ بِي شَيْئًا لَقِيتُهُ بِمِثْلِهَا مَغْفِرَةً.

حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو شخص ایک نیکی کرتا ہے اسے اس کی دس مثل اجر ملتا ہے اور میں مزید اجر دیتا ہوں اور زیادہ جزا ملتی ہے اور جو شخص ایک برائی کرتا ہے اسے صرف ایک برائی کی سزا ملتی ہے، یا میں اس کو معاف کر دیتا ہوں اور جو بہ قدر ایک بالشت میرے قریب ہوتا ہے میں اس سے بہ قدر ایک ہاتھ قریب ہوتا ہوں اور جو مجھ سے بہ قدر ایک ہاتھ قریب ہوتا ہے میں اس سے بقدر چار ہاتھ قریب ہوتا ہوں اور جو شخص میرے پاس چلتا ہوا آتا ہے میں اس کے پاس دوڑتا ہوا آتا ہوں اور جو شخص تمام روئے زمین کے برابر گناہ کر کے مجھ سے ملے اور اس نے شرک نہ کیا ہو تو میں اس سے اتنی ہی مغفرت کے ساتھ ملوں گا۔

  1. مسلم، الصحيح، 4: 2068، رقم: 2687
  2. أحمد بن حنبل، المسند، 5: 180، رقم: 21605، مصر: مؤسسة قرطبة

لیکن کچھ گناہ ایسے ہیں جن کی سزا پانا لازم ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًافَجَزَآؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيْهَا وَغَضِبَ اﷲُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَاَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيْمًاo

اور جو شخص کسی مسلمان کو قصداً قتل کرے تو اسکی سزا دوزخ ہے کہ مدتوں اس میں رہے گا اور اس پر اللہ غضبناک ہوگا اور اس پر لعنت کرے گا اور اس نے اس کے لیے زبردست عذاب تیار کر رکھا ہے۔

النساء، 4: 93

تاہم انسان جتنا بھی گنہگار ہو اسے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے پُرامید رہنا چاہیے اور ہمیشہ توبہ و استغفار کرتے رہنا چاہیے۔ توبہ کے لیے بڑھاپے یا مرنے کا انتظار کوئی دانش مندی نہیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری