طلاق کے لیے معروف الفاظِ کنایہ میں شوہر کی نیت معتبر ہے؟


سوال نمبر:4185
اسلام علیکم! مفتی صاحب ایک دن میرے شوہر نے لڑائی کے دوران میرے والد کو فون کر کے یہ الفاظ کہے: ’آپ کی بیٹی جھوٹی ہے، میری طرف سے فارغ ہے، اسے آ کے لے جائیں‘۔اس کے بعد انہوں نے دوبارہ میرے گھر رابطہ کیا تو میرے والد ان کے بہنوئی سے بات کر رہے تھے تو میرے شوہر نے مجھے کہا کہ اگر تمہارے والد نے میرے بہنوئی سے یہ بات کی تو تمہیں طلاق دے دوں گا۔ جبکہ میرے والد شوہر کی اس بات سے پہلے ہی ان کے بہنوئی سے بات کو چکے تھے اور میرے شوہر نے بھی بعد میں مجھ سے طلاق کی کوئی بات نہیں کی۔ البتہ میری طبیعت خرابی پر انہوں نے اسی وقت مجھے تسلی دی کے میری نیت طلاق کی نہیں ہے، اگر ایسا ہوتا تو میں وہ تین لفظ صاف صاف بول دیتا۔ اگرمیری نیت طلاق کی ہوئی تو صاف الفاظ میں دے دوں گا۔ آپ واضح فرما دیں کہ کیا طلاق واقع ہوئی ہے یا نہیں؟

  • سائل: ہانیہ چوہدریمقام: لاہور
  • تاریخ اشاعت: 22 اپریل 2017ء

زمرہ: طلاق  |  طلاق بائن  |  طلاق کنایہ

جواب:

آپ نے اپنے سوال میں بتایا کہ آپ کے شوہر نے بڑی صراحت کے ساتھ کہا ‘یہ میری طرف سے فارغ ہے، آ کر اسے لے جائیں’ ان الفاظ سے طلاق کے علاوہ کوئی اور معنیٰ لینا ممکن نہیں ہے۔ دلالتِ حال سے پتہ چل رہا ہے کہ یہ الفاظ طلاق کے لئے بولے گئے ہیں۔ کنایہ کے الفاظ سے دی گئی طلاق میں نیت کا اعتبار اس وقت کیا جاتا ہے جب بولے گئے لفظ سے ایک سے زیادہ معنیٰ مراد لیا جاسکتے ہوں، جبکہ یہاں صورتحال اس سے مختلف ہے۔ شوہر نے جو لفظ بولا وہ اپنے معنیٰ میں‌ واضح ہے اور اردو میں طلاق کے لیے معروف ہے، اس لیے شوہر کی نیت کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ شوہر کے ان الفاظ سے ایک طلاق واقع ہوگئی اور آپ دونوں کا نکاح ختم ہو چکا ہے۔ اگر دوبارہ اکٹھے رہنا چاہتے ہیں تو رجوع کے لیے دوبارہ نکاح کریں، توبہ کریں اور آئندہ ایسے الفاظ بولنے سے مکمل گریز کریں۔ محترم رشتوں کو مذاق مت سمجھیں۔ جذبات کی رو میں بہہ کر اپنی اور خاندان کی زندگی عذاب نہ بنائیں۔ مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے:

کنایہ کے الفاظ سے دی ہوئی طلاق کب واقع ہوتی ہے؟

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی