ٹھیکے والی زمین کی پیداوار پر عُشر کیسے ادا کیا جائے؟


سوال نمبر:4135

سوال: زمین کی پیداوار سے عشر نکالنے کا طریقہ کار بیان کریں جب زمین کوٹیوب ویل سے سیراب کیا گیا ہو اور اگر کوئی شخص بٹہ پر زمین لے تو وہ عشر کیسے نکالے گا؟ جبکہ وہ کل پیداوار سے عشر نکالے پھر مالک زمین بھی عشر نکالے تو دوبار عشر دینا پڑے گا۔ وضاحت سے بیان کریں۔

  • سائل: شفاءاللہمقام: روجھان جمالی
  • تاریخ اشاعت: 07 فروری 2017ء

زمرہ: عشر

جواب:

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَهُوَ الَّذِيْٓ اَنْشَاَ جَنّٰتٍ مَّعْرُوْشٰتٍ وَّغَيْرَ مَعْرُوْشٰتٍ وَّالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا اُکُلُهُ وَالزَّيْتُوْنَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا وَّغَيْرَ مُتَشَابِهٍ ط کُلُوْا مِنْ ثَمَرِهِٓ اِذَآ اَثْمَرَ وَاٰتُوْا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِٓ وَلَا تُسْرِفُوْا ط اِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَo

اور وہی ہے جس نے برداشتہ اور غیر برداشتہ (یعنی بیلوں کے ذریعے اوپر چڑھائے گئے اور بغیر اوپر چڑھائے گئے) باغات پیدا فرمائے اور کھجور (کے درخت) اور زراعت جس کے پھل گوناگوں ہیں اور زیتون اور انار (جو شکل میں) ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں اور (ذائقہ میں) جداگانہ ہیں (بھی پیدا کیے)۔ جب (یہ درخت) پھل لائیں تو تم ان کے پھل کھایا (بھی) کرو اور اس (کھیتی اور پھل) کے کٹنے کے دن اس کا (اﷲ کی طرف سے مقرر کردہ) حق (بھی) ادا کر دیا کرو اور فضول خرچی نہ کیا کرو، بے شک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

الانعام، 6: 141

اور احادیث مبارکہ میں فصل سے عشر نکالنے کا طریقہ بڑی صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ جو زمینیں بارش یا چشمے سے سیراب ہوتی ہیں ان کی کل پیداوار سے دسواں حصہ نکالنے کا حکم ہے اور خود سیراب کی جانے والی زمینوں کی کل پیداوار سے بیسواں حصہ نکالنے کا حکم ہے۔

حضرت سالم بن عبد اﷲ رضی اللہ عنہ نے اپنے والد ماجد سے روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

فِيمَا سَقَتِ السَّمَاءُ وَالْعُيُونُ أَوْ کَانَ عَثَرِيًّا الْعُشْرُ وَمَا سُقِيَ بِالنَّضْحِ نِصْفُ الْعُشْرِ.

جس فصل کو آسمان یا چشمے سیراب کریں یا خود بخود سیراب ہو اس میں عُشر (دسواں حصہ) ہے اور جس کو کنوئیں سے پانی دیا جائے اس میں نصف عُشر (بیسواں) ہے۔

  1. بخاري، الصحيح، 2: 540، رقم: 1412، بيروت، لبنان: دار ابن کثير اليمامة
  2. أبي داود، السنن، 2: 108، رقم: 1596، دار الفکر
  3. ترمذي، السنن، 3: 32، رقم: 640، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي

اور دوسری روایت میں حضرت جابر بن عبد اللہk بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

فِيمَا سَقَتِ الْأَنْهَارُ وَالْغَيْمُ الْعُشُورُ وَفِيمَا سُقِيَ بِالسَّانِيَةِ نِصْفُ الْعُشْرِ.

جن زمینوں کو دریا اور بارش سیراب کریں ان میں عشر (دسواں حصہ) ہے اور جو زمینیں اونٹ کے ذریعہ سیراب کی جائیں ان میں نصف عشر (بیسواں حصہ) ہے۔

  1. مسلم، الصحيح، 2: 675، رقم: 981، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي
  2. أحمد بن حنبل، المسند، 3: 341، رقم: 14708، مصر: مؤسسة قرطبة
  3. أبي داود، السنن، 2: 108، رقم: 1597، دار الفکر

مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ جس زمین کو نہری یا ٹیوب ویل کے پانی سے خود سیراب کیا جائے اس سے ہونے والی پیداوار سے نصف عشر (بیسواں حصہ) نکالا جائے گا۔ بصورت مسئولہ آپ لوگ بھی کل پیداوار سے ایک بار ہی نصف عشر (بیسواں حصہ) نکالیں گے لیکن مالک زمین سے معاہدہ کرتے وقت یہ طے کر لیا جائے کہ وہ عشر اور دیگر ٹیکسز کی ادائیگی میں حصہ دار ہو گا یا نہیں؟ اگر وہ بھی حصہ دار ہو تو اُس کو دی جانے والی رقم سے کٹوتی کی جائے گی ورنہ بٹہ پر زمین لینے والا ہی برداشت کرے گا۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری