کیا کلالہ کی بیوہ اور علاتی بہن بھائیوں کی موجودگی میں بھتیجوں کو ترکہ ملے گا؟


سوال نمبر:4125

ایک شخص (زید) فوت ہوا ہے جس کے ورثاء میں ایک بیوہ، دو حقیقی بھتیجے، ایک بھتیجی اور دو حقیقی بہنیں زندہ ہیں جبکہ والدین اور حقیقی بھائی اس سے پہلے وفات پا چکے ہیں۔ اور اس کے والد کی دوسری بیوی سے دو بیٹے اور تین بیٹیاں بھی موجود ہیں۔ اب مرحوم کا ترکہ کس طرح تقسیم ہوگا۔ مذکورہ بالا سب لوگ حصہ پائیں گے یا کوئی محروم بھی ہوگا؟

  • سائل: عظام ثناءاللہمقام: لودھراں
  • تاریخ اشاعت: 28 جنوری 2017ء

زمرہ: تقسیمِ وراثت

جواب:

میت کے کفن دفن پر اُٹھنے والے اخراجات، قرض کی ادائیگی اور وصیت (اگر ہو تو) ایک تہائی (1/3) سے پوری کرنے کے بعد جو منقولہ وغیر منقولہ جائیداد باقی بچ جائے، اس کو ورثاء میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ جب اولاد نہ ہو تو بیوی کو چوتھا حصہ ملتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْتُمْ اِنْ لَّمْ يَکُنْ لَّکُمْ وَلَدٌ ج فَاِنْ کَانَ لَکُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکْتُمْ مِّنْم بَعْدِ وَصِيَةٍ تُوْصُوْنَ بِهَآ اَوْ دَيْنٍ ط

اور تمہاری بیویوں کا تمہارے چھوڑے ہوئے (مال) میں سے چوتھا (1/4) حصہ ہے بشرطیکہ تمہاری کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر تمہاری کوئی اولاد ہو تو ان کے لیے تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں (1/8) حصہ ہے تمہاری اس (مال) کی نسبت کی ہوئی وصیت (پوری کرنے) یا (تمہارے) قرض کی ادائیگی کے بعد۔

النساء، 4: 12

اور کلالہ کے ترکہ میں بہن بھائیوں کے حصص کی وضاحت درج ذیل آیت مبارکہ میں ہے:

يَسْتَفْتُوْنَکَ ط قُلِ اﷲُ يُفْتِيْکُمْ فِی الْکَلٰـلَةِ ط اِنِ امْرُؤٌا هَلَکَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَّلَهُٓ اُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَاتَرَکَ ج وَهُوَ يَرِثُهَآ اِنْ لَّمْ يَکُنْ لَّهَا وَلَدٌ ط فَاِنْ کَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثٰنِ مِمَّا تَرَکَ ط وَاِنْ کَانُوْٓا اِخْوَةً رِّجَالًا وَّنِسَآءً فَلِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ ط يُبَيِّنُ اﷲُ لَکُمْ اَنْ تَضِلُّوْا ط وَاﷲُ بِکُلِّ شَيْئٍ عَلِيْمٌo

لوگ آپ سے فتویٰ (یعنی شرعی حکم) دریافت کرتے ہیں۔ فرما دیجیے! کہ اﷲ تمہیں (بغیر اولاد اور بغیر والدین کے فوت ہونے والے) کلالہ (کی وراثت) کے بارے میں یہ حکم دیتا ہے کہ اگر کوئی ایسا شخص فوت ہو جائے جو بے اولاد ہو مگر اس کی ایک بہن ہو تو اس کے لیے اس (مال) کا آدھا (1/2 حصہ) ہے جو اس نے چھوڑا ہے، اور (اگر اس کے برعکس بہن کلالہ ہو تو اس کے مرنے کی صورت میں اس کا) بھائی اس (بہن) کا وارث (کامل) ہوگا اگر اس (بہن) کی کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر (کلالہ بھائی کی موت پر) دو (بہنیں وارث) ہوں تو ان کے لیے اس (مال) کا دو تہائی (2/3 حصہ) ہے جو اس نے چھوڑا ہے، اور اگر (بصورتِ کلالہ مرحوم کے) چند بھائی بہن مرد (بھی) اور عورتیں (بھی وارث) ہوں تو پھر (ہر) ایک مرد کا (حصہ) دو عورتوں کے حصہ کے برابر ہوگا۔ (یہ احکام) اﷲ تمہارے لیے کھول کر بیان فرما رہا ہے تاکہ تم بھٹکتے نہ پھرو، اور اﷲ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔

النساء، 4: 176

مرحوم کی بیوہ اور حقیقی بہنوں کے مقررہ حصے دینے کے بعد جو باقی بچے گا وہ علاتی (باپ شریک) بھائی اور علاتی بہن کو بطور عصبہ ملے گا کیونکہ باپ شریک بہنیں، بھائیوں کے ساتھ مل کر عصبہ ہو جاتی ہیں۔ حدیث مبارکہ میں ہے:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ قَالَ: أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا فَمَا بَقِيَ فَهُوَ لِأَوْلَی رَجُلٍ ذَکَرٍ.

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میراث اُس کے حق دار لوگوں کو پہنچا دو اور جو باقی بچے تو وہ سب سے قریبی مرد کے لیے ہے۔

  1. بخاري، الصحيح، 6: 2476، رقم: 6351، دار ابن کثير اليمامة بيروت
  2. مسلم، الصحيح، 3: 1233، رقم: 1615، دار احياء التراث العربي بيروت
  3. ترمذي، السنن، 4: 418، رقم: 2098، دار احياء التراث العربي بيروت

مذکورہ بالا تصریحات کی رو سے مرحوم کی بیوہ کو کل مال کا چوتھا (1/4) حصہ ملے گا، کل مال کا ہی دو تہائی (2/3) حصہ نکال کر دونوں (2) حقیقی بہنوں میں برابر برابر تقسیم کیا جائے گا اور باقی بچنے والا مال بطور عصبہ دو علاتی بھائیوں اور تین علاتی بہنوں (یعنی والد کی دوسری بیوی سے بیٹے اور بیٹیوں) کو اس طرح ملے گا کہ ہر بھائی کو بہن سے دوگنا حصہ دیا جائے گا۔ مرحوم کے بھتیجے اور بھتیجیوں کو کچھ نہیں ملے گا کیونکہ اُن سے قریبی ورثاء موجود ہیں۔

مذکورہ بالا ورثاء کے حصے نکالنے کا آسان اور عام طریقہ درج ذیل ہے:

فرض کیا کل قابل تقسیم مال ایک لاکھ (100000) روپے ہے۔

  • بیوہ کا حصہ:

100000x1/8=12500 روپے

  • دو حقیقی بہنوں کا حصہ:

100000x2/3=66666.67 روپے دونوں میں برابر تقسیم ہوں گے یعنی

66666.67/2=33333.335 روپے ہر ایک کو ملیں گے۔

  • باپ شریک بھائی اور بہنوں کا حصہ:

100000-12500-66666.67=20833.33 روپے کے برابر سات حصے بنائیں گے۔

20833.33/7=2976.19 روپے

اس طرح ہر باپ شریک بھائی کو 5952.38 روپے اور ہر باپ شریک بہن کو 2976.19 روپے ملیں گے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری