کیا طلاقِ رجعی کے بعد کنایہ الفاظ سے دی ہوئی طلاق واقع ہوجاتی ہے؟


سوال نمبر:4074
میں نے پورے ہوش و حواس میں طلاق نامہ (جو کہ لف ہے) لکھا جس میں میں‌ نے پہلے ایک صریح طلاق دی اور بعد میں لکھا کہ میری بیوی میری طرف سے آزاد ہے اور ہمارا راستہ الگ ہے۔ براہِ مہربانی وضاحت کیجیے کہ اس سے کونسی طلاق واقع ہوئی ہے؟ اگر ہم راضی ہوں‌ تو کیا دوبارہ دونوں اکٹھے رہ سکتے ہیں؟

  • سائل: محمد اشفاق شاہمقام: نامعلوم
  • تاریخ اشاعت: 31 دسمبر 2016ء

زمرہ: طلاق  |  طلاق صریح  |  طلاق کنایہ

جواب:

الفاظ کے اعتبار سے طلاق کی دو قسمیں ہیں:

  1. طلاقِ صریح: طلاقِ صریح مراد ایسی طلاق ہے جو انہی الفاظ کے ساتھ دی جائے جو صرف طلاق کے لیے ہی استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً میں نے تجھے طلاق دی، تجھے طلاق ہے، تو مطلقہ ہے وغیرہ۔ یہ الفاظ چونکہ اپنے معنی کے لحاظ سے بالکل واضح ہیں، اس لئے ان الفاظ کے ساتھ طلاق واقع ہو جاتی ہے، خواہ خاوند کی نیت کچھ بھی ہو۔
  2. طلاقِ کنایہ: طلاقِ کنایہ سے مراد ایسی طلاق جو ایسے الفاظ استعمال کرتے ہوئے دی جائے جن سے طلاق کا معنیٰ بھی سمجھا جاسکتا ہے اور کوئی دوسرا معنیٰ بھی مراد لیا جاسکتا ہے۔ مثلاً تم اپنے گھر چلی جاؤ، اب اِس گھر میں تمھاری کوئی جگہ نہیں، تم مجھ سے الگ ہو جاؤ وغیرہ۔ اِس طرح کے الفاظ میں خاوند کی نیت کا اعتبار کیا جاتا ہے۔ اگر اس کی نیت صرف بیوی کو ڈرانے دھمکانے کی ہو تو طلاق واقع نہیں ہوتی اور اگراس کی نیت طلاق دینے کی ہو تو طلاق واقع ہو جاتی ہے۔

الفاظِ کنایات سے طلاق واقع ہونے کے بارے میں فقہاء کرام فرماتے ہیں:

وَالضَّرْبُ الثَّانِي: الْکِنَايَاتُ، وَلاَيَقَعُ بِهَا الطلاَقُ إلاَّبِنِيَةٍ، أَوْ دَلالَةٍ حَالٍ. وَهِيَ عَلَی ضَرْبَيْنِ: مَنْها ثَلاَثَةُ أَلْفَاظٍ يَقَعُ بِهَا الطّلاقُ الرَّجْعِيُّ، وَلاَيَقَعُ بهَا إِلا وَاحَدَةٌ، وَهِيَ قَوْلُهُ: أعْتَدِّي، وَاسْتَبْرِئِي رَحِمَکِ، وَأَنْتِ وَاحِدَةٌ،وَبَقِيَةُ الْکِنَايَاتِ إِذا نَوَی بِهَا الطلاَقَ کَانَتْ وَاحِدَةً بَائِنَةً، وَإِنْ نَوَی بِهَا ثَلاَثاً کَانَتْ ثَلاَثاً، وَإِنْ نَوَی اثْنَتَيْنِ کَانَتْ وَاحِدَةً، وَهَذَا مِثْلُ قَوْلِهِ: أَنْتِ بَائِنٌ، وَبَتَّةٌ، وَبَتْلَةٌ، وَحَرَامٌ، وَحَبْلُکِ عَلَی غَارِبِکِ، وَالْحَقی بِأَهْلِک، وَخَلِيَةٌ، وَبَرِيّةٌ، وَوَهَبْتُکِ لأهْلِکِ، وَسَرَّحْتُکِ، وَاخْتَارِيْ، وَفارَقْتُکِ، وَأَنْتِ حُرَّةٌ، وَتَقَنَّعِي، وَتَخَمَّرِي، وَاسْتَتِرِيْ، وَاغْرُبِيْ، وَابْتَغِي الأَزْوَاجَ، فَإِنْ لَمْ يَکُنْ لَهُ نِيَةٌ لَمْ يَقَعْ بِهٰذِهِ الأَلْفَاظِ طَلاَقٌ؛ إِلا أَنْ يَکُوْنَا فِيْ مُذَاکَرَةِ الطّلاَقِ؛ فَيَقَعُ بِهَا الطّلاَقُ فِيْ الْقَضَائِ، وَلاَيَقَعُ فِيْمَابَيْنَةُ وَبَيْنَ اﷲِ تَعَالَی إِلاَّ أَنْ يَنْوِيَهُ، وَإِنْ لَمْ يَکُوْنَا فِيْ مَذَاکَرَةِ الطّلاَقِ، وَکَانافِيْ غَضَبٍ أَوْ خُصُوْمَةٍ،وَقَعَ الطّلاَقُ بِکُلِّ لَفْظٍ لاَ يُقْصَدُ بِهِ السَّبُّ وَالشَّتِيْمَةُ، وَلَمْ يَقَعْ بِمَا يُقْصَدُبِهِ السَّبُّ وَالشَّتِيْمَةُ إِلاَّ أَنْ يَنْوِيَةُ.

’’(طلاق کی ) دوسری قسم کنایات ہے۔ ان سے طلاق صرف اس وقت ہو گی جب نیت یا دلالت حال ہو۔ اس کی دوقسمیں ہیں: تین الفاظ وہ ہیں جن سے طلاق رجعی واقع ہوتی ہے اور صرف ایک ہی واقع ہوتی ہے اوروہ یہ ہیں خاوند کا کہنا عدت گزار لے، اپنا رحم خالی کر لے اور تُو ایک ہے۔ اور باقی کنایات سے جب نیت طلاق کی ہو ایک بائن ہو گی، اگر تین کی نیت کرے گا تو تین ہو جائیں گی۔ دو کی کرے گا تو ایک ہو گی۔ اور اس کی مثال جیسے تو بائن، جدا ہے، الگ ہے، حرام ہے، تیری رسّی تیری گردن پر، اپنے میکے سے جا مل لے، تو خالی ہے، الگ تھلگ ہے، آزاد ہے، میں نے تجھے تیرے میکے کو بخش دیا، میں نے تجھے آزاد کیا، اختیار کر لے، میں نے تجھے جدا کیا، تو آزاد ہے، دوپٹہ کر لے (مراد شادی کر لے)، چادر اوڑھ لے، پردہ پوشی کر لے، غریب الوطن ہو جا اور خاوند ڈھونڈ لے۔ اگر نیت نہ ہو تو ان الفاظ سے کوئی طلاق نہیں ہے۔ ہاں مگر یہ کہ جب طلاق کا مذاکرہ ہو رہا ہے تو اس میں قضاء طلاق ہو جائے گی، اور خاوند اور اﷲ تعالیٰ کے درمیان نیت کے بغیر نہ ہوگی۔ اگر دونوں میں مذاکرہ طلاق نہ ہو رہا ہو اور دونوں غصہ میں ہوں اور جھگڑ رہے ہوں تو ہر لفظ سے طلاق ہو جائے گی بشرطیکہ مقصد گالی گلوچ نہ ہو۔ اور مقصد گالی گلوچ ہو تو نیت طلاق کے بغیر طلاق نہ ہو گی۔‘‘

  1. أحمد بن محمد البغدادي المعروف بالقدوري، مختصر القدوري: 363-363، مؤسسة الريان للطباعة والنشر والتوزيع، بيروت
  2. برهان الدين علي المرغيناني، الهداية شرح البداية، 1: 231، المکتبة الاسلامية

مزید فرماتے ہیں:

الکنايات لا يقع الطلاق اِلا بالنية أو بدلالة الحال.

’’کنایات سے صرف نیت ہو یا دلالت حال تو طلاق واقع ہو گی۔‘‘

  1. برهان الدين علي المرغيناني، الهداية شرح البداية، 1: 231
  2. الشيخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاوی الهندية، 1: 373، دار الفکر

الفاظ کنایات سے طلاق کے واقع ہونے کے لیے دلالتِ حال یا نیت کا ہونا ضروری ہے۔

ولا بد في ايقاع الطلاق بالکناية من أحد أمرين: اما النية کما ذکرنا، واما دلالة الحالة الظاهرة التي تفيد المقصود من الکنايات کما اذا سألته الطلاق، فقال لها: أنت بائن فانه يقع بدون نية.

اور الفاظ کنایہ سے طلاق کے واقع ہونے کے لئے ان دو باتوں میں سے ایک کا ہونا ضروری ہے۔ یا تو نیت ہو جیسا کہ بتایا گیا یا بظاہر حالات اس امر پر دلالت کرتے ہوں جو الفاظ کنایہ سے مراد ہیں مثلاً بیوی طلاق کا مطالبہ کرے اور خاوند کہے کہ تو بائن ہو گئی تو اب طلاق بغیر نیت کے واقع ہو جائے گی۔

عبد الرحمٰن الجزيري، الفقه علی المذاهب الأربعة، 3: 322، بيروت، لبنان: دار ار احياء التراث العربي

ومن الکنايات التي يقع بها الطلاق بالنية لفظ العتق، فاذا قال لها: أعتقتک ونوی به الطلاق بانت منه، وکذا اذا سألته الطلاق فأجابها بقوله: أعتقتک وان لم ينو، لأن دلالة الحال تقوم مقام النية.

منجملہ اُن کنایات کے جن سے طلاق کی نیت ہو تو طلاق ہو جاتی ہے لفظ عتق (آزادی دینا) بھی ہے پس اگر کہا کہ میں نے تجھے آزادی دے دی اور اس سے مراد طلاق تھی تو وہ طلاق بائنہ ہو جائے گی۔ اِسی طرح اگر بیوی نے طلاق کا مطالبہ کیا اور خاوند نے کہا ’’میں نے تجھے آزاد کر دیا‘‘ تو نیت طلاق نہ کرنے پر بھی طلاق بائنہ پڑ جائے گی کیونکہ یہ صورت حال نیت کی قائم مقام ہے۔

عبد الرحمٰن الجزيري، الفقه علی المذاهب الأربعة، 3: 326

ذیل میں کنایہ الفاظ سے طلاق صریح یا طلاق بائن واقع ہونے کے بعد مزید طلاق واقع ہونے یا نہ ہونے کی وضاحت دی گئی ہے:

أن الصريح وإن کان بائنا يلحق البائن ومن أن المراد بالبائن الذي لايلحق هو ماکان کناية.

’’طلاق صریح اگرچہ بائن ہو بائن سے ملحق ہو سکتی ہے اور جس بائن سے بائن ملحق نہیں ہو سکتی وہ کنایہ ہے‘‘۔

جیسے کہے أَنْتِ وَاحِدَةٌ ’’تو اکیلی ہے‘‘ گو اس میں لفظ طلاق نہیں ، مگر ’’وَاحِدَةٌ‘‘ طلاق کی صفت ہے۔ یعنی تجھے ایک طلاق۔ لہٰذا یہ اصل میں کنایہ نہیں، جس سے عورت بالکل حرام ہو جاتی ہے اور محلِ طلاق نہیں رہتی ، بلکہ دراصل یہ صریح رجعی ہے۔ اس لیے اس کے بعد دوسری رجعی عدت کے اندر ہو سکتی ہے۔

المراد بالبائن الذي لايلحق هو ما کان بلفظ الکناية.

’’وہ بائن جس سے دوسری طلا ق نہیں مل سکتی وہ ہے جو الفاظ کنایہ سے دی جائے۔‘‘

إذا طلقها تطليقة بائنة ثم قال لها في عدتها أنت عليّ حرام أو خلية أو برية أو بائن أو بتة أو شبه ذالک وهو يريد به الطلاق لم يقع عليها شیٔ.

’’جب خاوند نے بیوی کو ایک بائن طلاق دی پھر اسے عدت کے اندر کہا تُو میرے اوپر حرام ہے یا آزاد ہے یا بری ہے یا جدا ہے یا الگ ہے یا ان سے ملتے جلتے کلمات اور ان سے مراد طلاق لیتا ہے تو بیوی کو کوئی طلاق نہیں ہوگی۔‘‘

إن کان الطلاق رجعياً يلحقها الکنايات لأن ملک النکاح باق فتقييده بالرجعي دليل علی أن الصريح البائن لايلحقه الکنايات.

’’اگر طلاق رجعی ہو تو اس سے کنایات لاحق ہو سکتے ہیں کیونکہ مِلکِ نکاح باقی ہے۔ سو رجعی کی قید دلیل ہے۔اس امر کی کہ صریح بائن کے بعد کلمات کنایہ کچھ عمل نہیں کر سکتے‘‘۔

امام زیلعی شارع ہدایہ فرماتے ہیں:

طلاق بائن کا صریح کے بعد واقع ہونا تو ظاہر ہے کہ قید حکمی ہر حال میں باقی ہے ’’لبقاء الاستمتاع‘‘ کہ اس مطلقہ سے قربت جائز ہے۔‘‘

  1. ابن عابدين شامي، ردالمحتار، 3: 307-308، دار الفکر للطباعة والنشر بيروت
  2. شمس الدين السرخسي، المبسوط، 6: 213، دار المعرفة بيروت
  3. ابن همام، شرح فتح القدير، 3: 73، دار الفکر بيروت
  4. ابن نجيم، البحر الرائق، 3: 332، دار المعرفة بيروت
  5. حصفکي، الدر المختار، 3: 306، دار الفکر بيروت
  6. الشيخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاوی الهندية، 1: 377

خلاصہ کلام یہ ہے کہ کنایہ کے الفاظ دو قسم کے ہیں۔ پہلی قسم ایسے الفاظ جن میں صرف طلاق کا معنیٰ پایا جائے یا پھر کسی علاقہ میں وہ الفاظ صرف طلاق کے لئے ہی مستعمل ہوں، مثلاً:

  1. اعْتَدِّي (عدت گزار لے)
  2. اسْتَبْرِئِي رَحِمَکِ (اپنا رحم خالی کر لے)
  3. أَنْتِ وَاحِدَةٌ (تُو ایک ہے)

تو ان الفاظ سے طلاقِ رجعی واقع ہوتی ہے اور اس کی عدت میں مزید طلاقیں بھی واقع ہو جاتی ہیں۔ جیسے ابن عابدین شامی بیان کرتے ہیں:

الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لا يستعمل عرفا إلا فيه من أي لغة كانت.

’’صریح طلاق کے الفاظ وہ ہیں جو اکثر طلاق ہی کے لیے استعمال ہوتے ہیں، عرف عام میں کسی زبان میں وہ کسی اور معنی میں استعمال نہیں ہوتے‘‘۔

ابن عابدين شامي، ردالمحتار، 3: 252

دوسری قسم کے وہ الفاظ کنایہ ہیں جن سے نیت یا دلالت حال کی بناء پر طلاق بائن واقع ہونے سے عدت میں یا عدت کے بعد مزید طلاقیں واقع نہیں ہوتیں کیونکہ محل طلاق ہی باقی نہیں رہتا یعنی نکاح ہی ختم ہو جاتا ہے۔

آپ کے لکھے ہوئے طلاق نامہ کے مطابق ایک رجعی اور اس کے بعد ایک طلاق بائن واقع ہو کر آپ کی بیوی کو کل دو بار طلاق واقع ہو چکی ہے۔ اب اگر آپ رجوع کرنا چاہتے ہو تو دوبارہ نکاح کے بعد بطور میاں بیوی رہ سکتے ہو لیکن صرف ایک طلاق کا حق باقی رہ گیا ہے جب کبھی بھی ایک طلاق دی تو دو پہلے والی مل کر طلاق مغلظہ واقع ہو جائے گی۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی