توسیعِ‌ مسجد کے سبب اس کے کسی حصے کو چھوڑنے کا کیا حکم ہے؟


سوال نمبر:3981
السلام علیکم! کیا فرماتے ہیں مفتانِ کرام بیچ اس مسئلے کے کہ مسجد کا ایک حصہ جو تقریباً سو سالوں سے مسجد کا باقاعدہ حصہ رہا ہے اور ابھی بھی وہاں‌ نماز ادا ہو رہی ہے، اس جگہ کو توسیعِ مسجد کے وقت چھوڑنا یا اس کے تھوڑے سے حصے کو چھوڑ کر کسی اور کام میں استعمال کرنا کیسا ہے؟ تفصیلی وضاحت مع دلائل کر دیں تاکہ عند اللہ ماجور ہوں

  • سائل: محمد فیض اللہمقام: کرنول، بھارت
  • تاریخ اشاعت: 08 اگست 2016ء

زمرہ: مسجد کے احکام و آداب

جواب:

اگر مسجد کی نئی تعمیر، توسیع اور نمازیوں کی آسانی کے لیے عمارت میں تبدیلیاں مقصود ہوں تو مسجد کے کسی حصے کو چھوڑنے میں کوئی حرج نہیں۔ جیسے مسجد کی چھت کو استعمال میں لانے کے لیے مسجد میں سیڑھیاں تعمیر کرنا یا مسجد کی آمدنی کے لیے اس جگہ مارکیٹ تعمیر کرنا وغیرہ ہے۔ ہر تبدیلی جس کا مقصد مسجد کی تعمیر و ترقی، توسیع اور آبادی ہو، اس کے لیے عمارتی تبدیلیاں کرنا جائز ہے۔

امام ابنِ عابدین شامی فرماتے ہیں:

لأهل المحلة تحويل باب المسجد... لهم تحويل المسجد إلی مکان آخر إن ترکوه بحيث لايصلی فيه. ولهم بيع مسجد عتيق لم يعرف بانيه وصرف ثمنه في مسجد آخر.

’’محلے داروں کو اختیار ہے کہ وہ مسجد کا دروازہ بدل سکتے ہیں۔۔۔ اگر کسی مسجد (کو ایسے حال میں چھوڑ دیا گیا ہے کہ اس) میں نماز نہیں پڑھی جا رہی تو اہل محلہ مسجد کو دوسری جگہ منتقل بھی کر سکتے ہیں۔ انہیں یہ بھی اختیار ہے کہ ایسی پرانی مسجد جس کے بانی کا اتہ پتہ نہ ہو اسے بیچ دیں اور اس کی قیمت دوسری مسجد پر خرچ کر لیں۔‘‘‎

ابن عابدين شامي، رد المحتار، 4: 357، بيروت: دار الفکر للطباعة والنشر

امام ابنِ نجیم کے مطابق:

حوض أو مسجد خرب وتفرق الناس عنه فللقاضي أن يصرف أوقافه إلی مسجد آخر. ولو خرب أحد المسجدين في قرية واحدة فللقاضي صرف خشبة إلی عمارة المسجد الآخر.

’’حوض یا مسجد ویران ہو جائیں اور لوگ اِدھر اُدھر بکھر جائیں تو قاضی (عدالت) کو اجازت ہے اس کے اوقاف (زمین، جاگیر، باغات، دکانیں، مکانات اور رقوم) کسی اور مسجد پر صرف کرے۔ اگر ایک بستی (محلہ) میں، دو مسجدوں میں سے ایک ویران ہو جائے تو قاضی (عدالت) کو اختیار ہے کہ اس کی لکڑی (وغیرہ) دوسری مسجد کی تعمیر میں خرچ کرے۔‘‘

  1. زين الدين ابن نجيم، البحر الرائق، 5: 273، بيروت: دار المعرفة
  2. عبد الرحمن بن محمد، مجمع الأنهر في شرح ملتقي الأبحر، 2: 595، بيروت، لبنان: دار الکتب العلمية

لوخرب المسجد وماحوله وتفرق الناس عنه لايعود إلی ملک الوقف عند أبي يوسف فيباع نقضه بإذن القاضي ويصرف ثمنه إلی بعض المساجد.

’’اگر مسجد ویران ہوگئی اور آس پاس بھی ویران ہو گیا اور لوگ اِدھر اُدھر چلے گئے تو امام ابو یوسف رحمہ اﷲ کے نزدیک وقف کرنے والے کی ملکیت میں دوبارہ نہیں لوٹے گی۔ لہٰذا قاضی کی اجازت سے اس کا ملبہ فروخت کر کے اس کی قیمت کسی اور مسجد پر صرف کی جائے گی۔‘‘

  1. ابن عابدين شامي، رد المحتار، 4: 359
  2. مرغيناني، الهداية شرح البداية، 3: 20، المکتبة الإسلامية
  3. ابن الهمام، شرح فتح القدير، 6: 236، بيروت: دار الفکر
  4. زيلعي، تبيين الحقائق، 3: 330، القاهرة: دار الکتب الإسلامي

علامہ شامی مزید فرماتے ہیں:

ولا سيما في زماننا فإن المسجد أو غيره من رباط أو حوض إذا لم ينقل يأخذ أنقاضه اللصوص والمتغلبون کما هو مشاهد وکذلک أوقافه يأکلها النظار أو غيرهم ويلزم من عدم النقل خراب المسجد الآخر المحتاج إلی النقل إليه.

’’خصوصاً ہمارے زمانہ میں کہ مسجد، اصطبل یا حوض جب دوسری جگہ نقل نہ کئے گئے تو چور اور قابض باغی عناصر نے ان کے ملبہ پر قبضہ کر لیا جیسا کہ ہمارے مشاہدہ میں ہے۔ یونہی اوقاف (زمین، جاگیر، باغات، دکانیں، مکانات اور رقوم) کو منتظمین وغیرہ کھا جاتے ہیں۔ اس ملبہ کو دوسری جگہ منتقل نہ کرنے سے دوسری مسجد جس کو اس سامان کی ضرورت ہے، وہ ویران رہتی ہے۔‘‘

ابن عابدين شامي، رد المحتار، 4: 360

درج بالا تمام اقتباسات سے معلوم ہوا کہ مسجد کی ترقی اور آبادکاری مقصود ہو تو اس میں عمارتی تبدیلیاں کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری