منافقت کی کیا علامات ہیں؟


سوال نمبر:3978
السلام علیکم! مجھ سے کسی نے کہا کہ منافق کی کتنی نشانی ہوتی ہے؟ جواب دینے پر اس نے کہا کہ اس وقت کوئی شخص بتا دو جن میں یہ برائیاں نا ہوں؟ میں خاموش رہ کر سوچنے لگا کہ کیا ہم سب منافق ہیں؟ برائے مہربانی اصلاح فرما دیں

  • سائل: خرم احمد خانمقام: کراچی
  • تاریخ اشاعت: 09 اگست 2016ء

زمرہ: منافقت اور اس کی علامات

جواب:

قرآنِ مجید میں منافقین کی علامات بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُولُ آمَنَّا بِاللّهِ وَبِالْيَوْمِ الآخِرِ وَمَا هُم بِمُؤْمِنِينَO ُخَادِعُونَ اللّهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلاَّ أَنفُسَهُم وَمَا يَشْعُرُونَO فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللّهُ مَرَضاً وَلَهُم عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَO وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لاَ تُفْسِدُواْ فِي الأَرْضِ قَالُواْ إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَO أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَـكِن لاَّ يَشْعُرُونَO وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُواْ كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُواْ أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَـكِن لاَّ يَعْلَمُونَO وَإِذَا لَقُواْ الَّذِينَ آمَنُواْ قَالُواْ آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَى شَيَاطِيـْنِهِمْ قَالُواْ إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِءُوْنَO اللّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَO أُوْلَـئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُاْ الضَّلاَلَةَ بِالْهُدَى فَمَا رَبِحَت تِّجَارَتُهُمْ وَمَا كَانُواْ مُهْتَدِينَO مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَاراً فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهُ ذَهَبَ اللّهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَكَهُمْ فِي ظُلُمَاتٍ لاَّ يُبْصِرُونَO صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لاَ يَرْجِعُونَO أَوْ كَصَيِّبٍ مِّنَ السَّمَاءِ فِيهِ ظُلُمَاتٌ وَّرَعْدٌ وَّبَرْقٌ يَجْعَلُونَ أَصَابِعَهُمْ فِي آذَانِهِم مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ وَاللّهُ مُحِيطٌ بِالْكَافِرِينَO يَكَادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ أَبْصَارَهُمْ كُلَّمَا أَضَاءَ لَهُم مَّشَوْاْ فِيهِ وَإِذَا أَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُواْ وَلَوْ شَاء اللّهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَأَبْصَارِهِمْ إِنَّ اللَّه عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌO

اور لوگوں میں سے بعض وہ (بھی) ہیں جو کہتے ہیں ہم اللہ پر اور یومِ قیامت پر ایمان لائے حالانکہ وہ (ہرگز) مومن نہیں ہیں۔ وہ اللہ کو (یعنی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو) اور ایمان والوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں مگر (فی الحقیقت) وہ اپنے آپ کو ہی دھوکہ دے رہے ہیں اور انہیں اس کا شعور نہیں ہے۔ ان کے دلوں میں بیماری ہے، پس اللہ نے ان کی بیماری کو اور بڑھا دیا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ اس وجہ سے کہ وہ جھوٹ بولتے تھے۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد بپا نہ کرو، تو کہتے ہیں: ہم ہی تو اصلاح کرنے والے ہیں۔ آگاہ ہو جاؤ! یہی لوگ (حقیقت میں) فساد کرنے والے ہیں مگر انہیں (اس کا) احساس تک نہیں۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ (تم بھی) ایمان لاؤ جیسے (دوسرے) لوگ ایمان لے آئے ہیں، تو کہتے ہیں: کیا ہم بھی (اسی طرح) ایمان لے آئیں جس طرح (وہ) بیوقوف ایمان لے آئے، جان لو! بیوقوف (درحقیقت) وہ خود ہیں لیکن انہیں (اپنی بیوقوفی اور ہلکے پن کا) علم نہیں۔ اور جب وہ (منافق) اہل ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم (بھی) ایمان لے آئے ہیں، اور جب اپنے شیطانوں سے تنہائی میں ملتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم یقیناً تمہارے ساتھ ہیں، ہم (مسلمانوں کا تو) محض مذاق اڑاتے ہیں۔ اللہ انہیں ان کے مذاق کی سزا دیتا ہے اور انہیں ڈھیل دیتا ہے (تاکہ وہ خود اپنے انجام تک جا پہنچیں) سو وہ خود اپنی سرکشی میں بھٹک رہے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خریدی لیکن ان کی تجارت فائدہ مند نہ ہوئی اور وہ (فائدہ مند اور نفع بخش سودے کی) راہ جانتے ہی نہ تھے۔ ان کی مثال ایسے شخص کی مانند ہے جس نے (تاریک ماحول میں) آگ جلائی اور جب اس نے گرد و نواح کو روشن کر دیا تو اللہ نے ان کا نور سلب کر لیا اور انہیں تاریکیوں میں چھوڑ دیا اب وہ کچھ نہیں دیکھتے۔ یہ بہرے، گونگے (اور) اندھے ہیں پس وہ (راہِ راست کی طرف) نہیں لوٹیں گے۔ یا ان کی مثال اس بارش کی سی ہے جو آسمان سے برس رہی ہے جس میں اندھیریاں ہیں اور گرج اور چمک (بھی) ہے تو وہ کڑک کے باعث موت کے ڈر سے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے ہیں، اور اللہ کافروں کو گھیرے ہوئے ہے۔ یوں لگتا ہے کہ بجلی ان کی بینائی اُچک لے جائے گی، جب بھی ان کے لئے (ماحول میں) کچھ چمک ہوتی ہے تو اس میں چلنے لگتے ہیں اور جب ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے تو کھڑے ہو جاتے ہیں، اور اگر اللہ چاہتا تو ان کی سماعت اور بصارت بالکل سلب کر لیتا، بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

البقرہ، 2: 8 تا 20

احادیث مبارکہ میں ہے:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ قَالَ: آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَـلَاثٌ: إِذَا حَدَّثَ کَذَبَ. وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: منافق کی تین نشانیاں ہیں۔ بات کرے تو جھوٹ بولے گا۔ وعدہ کرے گا تو خلاف ورزی کرے گا اور امانت اس کے پاس رکھی جائے تو خیانت کرے گا۔‘‘

  1. بخاري، الصحيح، 1: 21، رقم: 33، بيروت، لبنان: دار ابن کثير اليمامة
  2. مسلم، الصحيح، 1: 78، رقم: 59، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي

عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرٍو: أَنَّ النَّبِيَّ قَالَ: أَرْبَعٌ مَنْ کُنَّ فِيهِ کَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا، وَمَنْ کَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنْهُنَّ کَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنْ النِّفَاقِ حَتَّی يَدَعَهَا: إِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ، وَإِذَا حَدَّثَ کَذَبَ، وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ، وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ.

’’حضرت عبداﷲ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: چار باتیں جس میں ہوں وہ خالص منافق ہے اور جس کے اندر ان میں سے کوئی ایک ہو تو اس میں نفاق کا ایک حصہ ہے، یہاں تک کہ اسے چھوڑ دے۔ جب امانت سپرد کی جائے تو خیانت کرے، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب جھگڑے تو بیہودہ بکے۔‘‘

  1. بخاري، الصحيح، 1: 21، رقم: 34
  2. مسلم، الصحيح، 1: 78، رقم: 58

قرآن و حدیث میں منافقین کی درج ذیل علامات مذکور ہیں:

  • دعوی ایمان صرف زبانی حد تک کرنا اور باطن کا اس کی تصدیق سے خالی ہونا۔
  • محض توحید و آخرت پر ایمان کو کافی سمجھنا اور رسالتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان اس قدر ضروری نہ سمجھنا۔
  • دھوکہ دہی اور مکرو فریب کی نفسیات
  • یہ سمجھنا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری حالتِ نفاق سے بے خبر ہیں۔
  • یہ سمجھنا کہ ہم اپنی مکاریوں، حیلہ سازیوں اور چالاکیوں سے دوسروں کو فریب دینے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔
  • قلب و باطن کا بیمار ہونا
  • جھوٹ بولنا
  • نام نہاد اصلاح کے پردے میں فساد انگیزی یعنی مفسدانہ طرزِ عمل کے باوجود خود کو صالح اور مصلح سمجھنا
  • دوسروں کو بے وقوف اور صرف خود کو اہل عقل و دانش سمجھنا۔
  • امت مسلمہ کی اکثریت کو گمراہ تصور کرنا
  • اجماع امت یا سواد اعظم کی پیروی نہ کرنا
  • کردار کا دوغلا پن اور ظاہر و باطن کا تضاد
  • اہل حق کے خلاف مخفی سازشیں اور تخریبی منصوبے تیار کرنا
  • اہل حق کے استہزاء کی نفسیات
  • مسلمانوں پر طنز، طعنہ زنی اور ان کی تحقیر و تمسخر کے در پے ہونا
  • باطل کو حق پر ترجیح دینا
  • سچائی کو روشن دیکھتے ہوئے بھی اس سے آنکھیں بند کر لینا
  • تنگ نظری، تعصب اور عناد میں اس حد تک پہنچ جانا کہ کان، حق سن نہ سکیں، زبان حق کہہ نہ سکے اور آنکھیں، حق دیکھ نہ سکیں۔
  • اسلام کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات سے گھبرانا اور ان سے بچاؤ کی تدابیر کرنا
  • اہل حق کی کامیابیوں پر دنگ رہ جانا اور ان پر حسد کرنا
  • مفاد پرستانہ طرزِ عمل یعنی مفادات کے حصول کے لیے اہل حق کا ساتھ دینا اور خطرات و مصائب میں قربانی سے گریز کرتے ہوئے ان سے علیحدہ ہو جانا
  • حق کے معاملے میں نیم دلی اور تذبذب کی کیفیت میں مبتلا رہنا۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری