کیا نماز پنجگانہ پہلے انبیاء کرام اور ان کی اُمتوں پر بھی فرض کی گئی تھی؟


سوال نمبر:395
کیا نماز پنجگانہ پہلے انبیاء کرام اور ان کی اُمتوں پر بھی فرض کی گئی تھی؟

  • تاریخ اشاعت: 26 جنوری 2011ء

زمرہ: عبادات  |  عبادات

جواب:

جی نہیں، نماز پنجگانہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے نہ تو انبیاء کرام میں سے کسی نے ادا کی اور نہ ہی ان کی امت نے۔ البتہ ان پانچ نمازوں میں سے ہر ایک نماز کسی نہ کسی نبی نے ضرور ادا کی ہے اور قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق دنیا میں کوئی رسول یا نبی ایسا نہیں آیا جس نے اپنی امت کو اﷲ تعالیٰ کے حکم سے خود نماز نہ پڑھائی ہو یا نماز کا حکم نہ دیا ہو۔

1۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی :

رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِيْمَ الصَّلٰوةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِیْ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَآءِo

ابراهيم، 14 : 40

’’اے میرے رب! مجھے اور میری اولاد کو نماز قائم رکھنے والا بنا دے، اے ہمارے رب! اور تو میری دعا قبول فرما لےo‘‘

2۔ قرآن حکیم میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کا عمل مذکور ہے :

وَكَانَ يَأْمُرُ أَهْلَهُ بِالصَّلاَةِ وَالزَّكَاةِ وَكَانَ عِندَ رَبِّهِ مَرْضِيًّاO

مريم، 19 : 55

’’اور وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتے تھے اور وہ اپنے رب کے حضورمقامِ مرضیّہ پر (فائز) تھے (یعنی ان کا رب ان سے راضی تھا)o‘‘

3۔ حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم نے آپ کو نماز کا طعنہ دیا :

قَالُواْ يَا شُعَيْبُ أَصَلاَتُكَ تَأْمُرُكَ أَن نَّتْرُكَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا أَوْ أَن نَّفْعَلَ فِي أَمْوَالِنَا مَا نَشَاءُ إِنَّكَ لَأَنتَ الْحَلِيمُ الرَّشِيدُO

هود، 11 : 87

’’وہ بولے اے شعیب! کیا تمہاری نماز تمہیں یہی حکم دیتی ہے کہ ہم ان (معبودوں) کو چھوڑ دیں جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کرتے رہے ہیں یا یہ کہ ہم جو کچھ اپنے اموال کے بارے میں چاہیں (نہ) کریں؟ بے شک تم ہی (ایک) بڑے تحمل والے ہدایت یافتہ (رہ گئے) ہوo‘‘

4۔ حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا :

يَا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلَاةَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنكَرِ وَاصْبِرْ عَلَى مَا أَصَابَكَ إِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِO

لقمٰن، 31 : 17

’’اے میرے فرزند! تو نماز قائم رکھ اور نیکی کا حکم دے اور برائی سے منع کر اور جو تکلیف تجھے پہنچے اس پر صبر کر، بے شک یہ بڑی ہمت کے کام ہیںo‘‘

امام حلبی، امام رافعی کی شرح مسند شافعی کے حوالے سے لکھتے ہیں حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے صبح کی نماز پڑھی، حضرت داؤد علیہ السلام نے ظہر کی نماز پڑھی، حضرت سلیمان علیہ السلام نے عصر کی نماز پڑھی، حضرت یعقوب علیہ السلام نے مغرب کی نماز پڑھی اور حضرت یونس علیہ السلام نے عشاء کی نماز پڑھی۔

طحاوی، شرح معانی الآثار، کتاب الصلاة، باب الصلاة الوسطی اي الصلوات، 1 : 226، رقم : 1014

عشاء کی نماز سب سے پہلے حضرت یونس علیہ السلام نے پڑھی لیکن ان کی یا اور کسی نبی کی امت نے یہ نماز نہیں پڑھی۔ امتیوں میں صرف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کو اس نماز کے پڑھنے کا شرف حاصل ہوا ہے۔

امام ابو داؤد اپنی سند کے ساتھ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اَعْتِمُوْا بِهَذِهِ الصَّلَاةِ، فَاِنَّکُمْ قَدْ فَضِّلْتُمْ بِهَا عَلَی سَآئِرِ الْأُ مَمِ، وَلَمْ تُصَلِّهَا اُمَّةٌ قَبْلَکُمْ.

ابو داؤد، السنن، کتاب الصلاة، باب في وقت العشآء الاخرة، 1 : 173، رقم : 421

’’اس نماز (عشاء) کو تاخیر سے پڑھا کرو کیونکہ تمہیں اس نماز کی وجہ سے پچھلی تمام امتوں پر فضیلت دی گئی ہے اور تم سے پہلے کسی امت نے یہ نماز نہیں پڑھی۔‘‘

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔