نظریہ اباحت سے کیا مراد ہے؟


سوال نمبر:3942
السلام علیکم! میں نے ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب سے سنا ہےکہ شریعت میں کسی بھی کام کے نہ کرنے پر دلیل مانگی جاتی ہے۔ براہ مہربانی اس کی مزید وضاحت فرما دیں

  • سائل: خرم احمد خانمقام: کراچی
  • تاریخ اشاعت: 22 جون 2016ء

زمرہ: متفرق مسائل

جواب:

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے دینی و دنیوی لحاظ سے زندگی کا کوئی بھی گوشہ ایسا نہیں ہے جس کے متعلق اسلام نے رہنمائی نہ کی ہو اشیاء کی تحلیل و تحریم (حلال و حرام قرار دینا) کے حوالے سے اسلام نے جو اصول تشریع مقرر کئے ہیں ان میں پہلا اصول یہ مقرر کیا ہے کہ اللہ تعالی کی پیداکردہ تمام چیزیں مباح ہیں۔ حرام اور واجب صرف وہ چیزیں ہیں جن کی حرمت یا وجوب کے بارے میں صحیح اور صریح نص وارد ہو چکی ہو، اگر کسی شئے کی حرمت و وجوب کے حوالے سے صحیح اور صریح نص نہ پائی جاتی ہو تو وہ چیز مباح تصور کی جائے گی۔ یہ اصول صرف اسلام کے نظام قانون کا ہی اصول نہیں ہے بلکہ دنیا کے تمام نظام قانون کا ایک بنیادی اصول ہے کہ اشیاء و افعال اپنی اصل کے اعتبار سے مباح اور جائز ہیں، پھر ان اشیاء میں سے جو لازمی طورپر مطلوب یا ممنوع ہوتی ہیںخود ان کویا ان کی علت کو نصوص میں بیان کر دیا جاتا ہے ان کے علاوہ باقی اشیاء کو مباح کے طورپر مطلق چھوڑدیا جاتا ہے ۔ایسی مباح اشیاء کے کرنے یا نہ کرنے بارے میں لوگوں کو آزادی اوراختیار ہوتا ہے،اور ان کے کرنے یا نہ کرنے پر قانونی لحاظ سے کوئی مواخذہ نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ قوانین کی تشکیل میںکہیں بھی مباح امور کا احاطہ نہیں کیا جاتا بلکہ صرف لازمی وحرام امور کا احاطہ کیاجاتا ہے۔

اسلام آسان دین ہے، قدم قدم پربنی نوع انسان کو آسانیاں اور سہولتیں عطا کرتا ہے اس کے قانون سازی کے اصولوں میں قلت تکلیف ایک بنیادی اصول ہے یہی وجہ ہے اس میں محرمات و واجبات کا دائرہ مباح اور جائز امور کے مقابلے میں تنگ اور محدود ہے، کیونکہ محرمات اور واجبات وہ امور ہوتے ہیں جن کا انسان لازمی طور پر پابند ہوتا ہے ۔فطری طور پر انسان چونکہ آزاد منش پیدا ہوا ہے ،زیادہ پابندیوں سے کتراتا ہے اور آسانیوںکی طرف زیادہ مائل ہوتا ہے، اس لئے اسلام نے واجبات و ممنوعات کے احکام کا غیر ضروری بوجھ انسان پر نہیں ڈالا بلکہ چند محدود اشیاء و امور جن کا کرنا یا نہ کرنا انسان کی دینی و دنیوی فلاح کے لئے نہایت ضروری تھا کا پابند ٹھہرایا اور باقی اشیاء کو انسانی اختیار پر چھوڑتے ہوئے مباح قرار دے دیا ہے ۔ یعنی اسلام کے مطابق زمین و آسمان کی تمام اشیاء بنی نوع انسان کے انتفاع کے لئے تخلیق کی گئی ہیں جس کا تقاضہ ہے کہ زمین و آسمان کی تمام اشیاء مباح الاصل ہوں سوائے ان اشیاء کے جن کے کرنے یا نہ کرنے کا انسان کو پابند ٹھہرایا گیا ہے۔ اس تصور کو نظریہ اباحت اصلیہ کے عنوان سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

نظریہ اباحت اصلیہ کو اصول فقہ اور قواعدفقہ کی کتابوں میں درج ذیل الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے:

  • الأصل في الأشياء الإباحة.

’’اشیاء میں اصل جواز (جائز ہونا) ہے۔‘‘

  1. ابن عبد البر، التمهيد، 4: 67، 143، مغرب (مراکش)، وزات عموم الاوقاف والشوون الإسلامية
  2. سيوطي، الأشباه و النظائر: 60، بيروت، لبنان: دار الکتب العلمية
  3. ابن عابدين شامي، رد المحتار، 1: 105، بيروت: دار الفکر
  • ان الاصل في الاشياء الإباحة وان الحرمة بالنهي عنها شرعا.

’’اشیاء میں اصل جواز (جائز ہونا) ہے اور حرمت (ممانعت) صرف شرعی دلیل سے ہوگی۔‘‘

سرخسي، المبسوط، 24: 77، بيروت: دار المعرفة

  • الأشياء علی الإباحة حتی يرد الشرع بالمنع.

’’چیزیں اس وقت تک جائز ہیں جب تک شرعی ممانعت نہ ہو۔‘‘

  1. ابن عبدالبر، التمهيد، 17: 95
  2. عسقلاني، فتح الباري، 13: 263، لاهور، پاکستان،دار نشر الکتب الاسلامية
  3. ابن حزم، المحلی، 1: 177، بيروت، لبنان: دار الآفاق الجديده
  • الأصل في الأشياء الحل.

’’اشیاء میں اصل جواز ہے۔‘‘

  1. زرکشی، المنثور فی القواعد، 1: 306، کويت: وزارة الاوقاف والشون الاسلاميه
  2. مبارک پوری، تحفة الاحوذی في شرح جامع الترمذي، 4: 331، بيروت، لبنان: دار الکتب العلمية
  • الأصل في الأعيان الحل.

’’اشیاء میں اصل جواز ہے۔‘‘

زرکشي، البحر المحيط في اصول الفقه، 4: 325، بيروت، لبنان: دار الکتب العلمية

  • الحل هو الأصل في الأشياء.

’’اشیاء میں جواز ہی اصل ہے۔‘‘

  1. ابن همام، شرح فتح القدير، 7: 3، بيروت، لبنان: دار الفکر
  2. ابن عابدين، ردالمحتار، 4: 167
  • أصل الأفعال الإباحة.

’’اصلی اصول ہر کام میں جواز ہے۔‘‘

إبن قيم، اعلام الموقعين عن رب العالمين، 2: 387، بيروت، لبنان: دار الجيل

  • الأمور أصلها الإباحة حتی يثبت الحظر

’’جب تک ممانعت شرعی ثابت نہ ہو، تمام امور میں جواز ہی اصل ہے۔‘‘

ابن عبدالبر، التمهيد، 9: 205

  • الأصل في المنافع الإذن و في المضار المنع.

’’مفید چیزوں میں اصل اجازت ہے اور نقصان دہ چیزوں میں اصل ممانعت ہے۔‘‘

رازي، المحصول في علم الأصول، 6: 131، رياض، سعودی عرب: جامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية

نظریہ اباحت کی مذکورہ بالا تمام تعبیرات کے الفاظ اور ان کی ترتیب میں اگرچہ تھوڑا بہت اختلاف پایا جاتا ہے، مگر سب کا مقصود ایک ہی ہے کہ جب تک کسی شے کی حرمت کسی دلیل شرعی سے ثابت نہ ہو تو وہ حلال متصور ہوگی۔

اگر ہم روز مرہ زندگی میں بھی دیکھیں تو یہی قاعدہ قابل عمل ہے ورنہ تو انسان کے لئے زندگی کا ہر ہر قدم مشکل بن کر رہ جائے۔ مثلاً ہم گھر سے نکلیں تو گلیوں، بازاروں اور سڑکوں پر یہ لکھا ہوا تلاش کرنا شروع کر دیں کہ کہاں لکھا ہوا ہے کہ ہم یہاں سے گزر سکتے ہیں یا نہیں؟ ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔ ہاں کہیں کہیں یہ لکھا ہوا ضرور مل جائے گا کہ یہ راستہ فلاں مقام کی طرف جا رہا ہے یا پھریہ الفاظ اور علامات ملیں گی کہ یہ شارع عام نہیں ہے، No entry، یہاں غیر متعلقہ افراد کا داخلہ بند ہے، بغیر اجازت اندر آنا منع ہے وغیرہ وغیرہ یا پھر گیٹ یا کسی بھی رکاوٹ سے راستہ بند کر دیا جاتا ہے۔ یعنی ہر اس راستے سے گزرنے کی اجازت ہوتی ہے جہاں ممانعت کا کوئی نشان نہ پایا جائے۔

لہٰذا شریعت میں بھی کسی کام کے نہ کرنے کے لئے ممانعت کی دلیل ہونا ضروری ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری