اگر الفاظ کنایہ بولتے ہوئے طلاق کی نیت نہ ہو تو کیا حکم ہے؟


سوال نمبر:3913
مفتی صاحب! ایک دفعہ میرے اور میری بیوی کے بیچ کسی بات پرجھگڑا ہو گیا جس کی وجہ سے ہم لوگ ناراض ہوگئے۔ اب اس نے مجھے بلایا میں نہیں بولا۔ پھر اس نے پوچھا کہ میرا اور آپ کا کوئی تعلق نہیں؟ اس نے 3 بار پوچھا، میں نے ’نہیں‘ میں جواب دیا۔ میرے ذہن میں طلاق کے حوالے سے یا علیحدگی کے حوالے سے کوئی خیال بھی نہ تھا۔ پھر ہم کچھ دنوں بعد راضی ہوگئے۔ اس بات سے نکاح پر کوئی اثر تو نہیں پڑا؟ برائے مہربانی جواب مجھے ای میل کر دیں۔ شکریہ

  • سائل: صدام حسینمقام: بھمبر، آزاد کشمیر
  • تاریخ اشاعت: 18 مئی 2016ء

زمرہ: طلاق  |  طلاق بائن

جواب:

بصورت مسئلہ اگر لڑائی کی وجہ سے آپ غصے میں تھے اور غصے کی بھی ایسی کیفیت آپ پر طاری تھی جس میں انسان کا خود پر کنڑول نہیں رہتا تو طلاق واقع نہیں ہوئی۔ غصے کی طلاق کے بارے تفصیلی وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے: غصّے کی کون سی حالت میں دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی؟

اس کے برعکس اگر کیفیت نارمل تھی اور بیوی نے آپ کی خاموشی کی وجہ سے بطور بیوی کے آپ سے پوچھا کہ ’کیا میرا اور آپ کا کوئی تعلق نہیں ہے؟‘ اس نے تین بار یہی سوال آپ کے میاں بیوی والے تعلق کو ہی ذہن میں رکھ کر کیا اور آپ نے تینوں بار اس کا جواب نفی میں دیا۔ پہلی بار پوچھنے پر جب آپ نے نفی میں جواب دیا تو آپ لوگوں کا نکاح ختم ہو گیا کیونکہ الفاظ کنایہ سے طلاقِ بائن واقع ہو جاتی ہے جس سے نکاح فوراً ختم ہو جاتا ہے۔ جب طلاق بائن واقع ہو گئی اور نکاح ختم ہو چکا تو اس کے بعد دی جانے والی طلاقیں لغو (فضول) ہیں۔

الفاظِ کنایہ کے ساتھ دی گئی طلاق کے واقع ہونے کی دو صورتیں ہیں:

  1. جب طلاق کی نیت سے کنایہ کے الفاظ بولے جائیں
  2. جب قرینہ ایسا پایا جائے کہ الفاظِ کنایہ سے طلاق کے علاوہ کوئی دوسرا معنیٰ مراد لینا ممکن نہ ہو

ان دونوں صورتوں میں نکاح فوراًختم ہوجاتا ہے، اور رجوع کے لیے تجدید نکاح ضروری ہوتاہے۔ اپنے سوال میں آپ نے بتایا کہ دورانِ سوال و جواب آپ کی طلاق کی نیت نہیں تھی، تاہم قرینہ(دلالتِ حال)سے طلاق کے علاوہ کوئی اور مراد لینا ممکن نہیں اس لیے طلاقِ بائن واقع ہوچکی۔ الفاظِ کنایہ سے طلاق کی وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے:

کنایہ کے کن الفاط سے طلاقِ بائن واقع ہوتی ہے؟

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری