کیا قسطوں پر اشیاء کی خریداری جائز ہے؟


سوال نمبر:3901
السلام علیکم! مفتی صاحب میں ایک شخص سے پانچ مہینے کی قسطوں پے کچھ چیزیں خرید رہا ہوں اور وہ آدمی بول رہا ہے کہ وہ ان چیزوں کی اصل قیمت سے بیس فیصد (٪ 20) زیادہ رقم لے گا- کیا اس صورت میں چیزیں خریدنا جائز ہے؟

  • سائل: ایاز محبوبمقام: ابو ظہبی
  • تاریخ اشاعت: 20 اپریل 2016ء

زمرہ: قسطوں پر خرید و فروخت

جواب:

قسطوں پر اشیاء خرید و فرخت جائز ہے۔ یہ تجارت کی ہی ایک جائز قسم ہے جس کے ناجائز ہونے کی کوئی شرعی وجہ نہیں ہے۔ اصل میں ایک ہی سودے کی دو صورتیں ہیں جو نقد کی صورت میں کم قیمت پر اور قسط کی صورت میں زائد قیمت پر فروخت کنندہ اور خریدار کے ایجاب و قبول سے طے پاتا ہے۔

اُدھار بیچنے کی صورت میں شے کی اصل قیمت میں زیادتی کرنا جائز ہے، یہ سود نہیں، تاہم ادائیگی میں تاخیر پر جرمانہ عائد کرنا سود کے زمرے میں آتا ہے۔ بیع التقسیط (قسطوں پر خرید و فروخت) کے لیے ضروری ہے کہ ایک ہی مجلس میں یہ فیصلہ کرلیا جائے کہ خریدار نقد لے گا یا اُدھار قسطوں پر، تاکہ اسی کے حساب سے قیمت مقرّر کی جائے۔ اس شرط کے ساتھ قسطوں پر اشیاء کی خرید و فروخت کرنا شرعاً جائز ہے۔ قسطوں کی خرید و فروخت کے بارے میں مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے:

قسطوں‌ پر خرید و فروخت کے شرعی احکام کیا ہیں؟

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔