کیا باندیوں سے بغیر نکاح کے مباشرت جائز ہے؟


سوال نمبر:3813
السلام علیکم! کیا باندیوں سے جسمانی تعلق قائم کرنا حلال ہے؟ متعہ کے سوال کے جواب میں‌ آپ نے یہ کہا ہے۔

  • سائل: بلالمقام: میلبورن
  • تاریخ اشاعت: 19 فروری 2016ء

زمرہ: نکاح  |  مال غنیمت کے احکام

جواب:

جس خدا نے بیوی سے لطف اندوز ہونے کو جائز قرار دیا ہے اسی نے لونڈی سے بھی جسمانی تعلق قائم کرنے کی اجازت دی ہے۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر یہ مضمون بیان ہوا ہے۔ جیسے سورہ مومنون میں اللہ پاک کا ارشاد ہے:

إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَo ففَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْعَادُونَo

’’سوائے اپنی بیویوں کے یا ان باندیوں کے جو ان کے ہاتھوں کی مملوک ہیں، بے شک (احکامِ شریعت کے مطابق ان کے پاس جانے سے) ان پر کوئی ملامت نہیں۔ پھر جو شخص ان (حلال عورتوں) کے سوا کسی اور کا خواہش مند ہوا تو ایسے لوگ ہی حد سے تجاوز کرنے والے (سرکش) ہیں۔‘‘

المؤمنون، 23: 6، 7

یہ دو آیات اس باب میں قطعی دلیل ہیں کہ کسی شخص کے لئے جائز قربت کی صرف دو صورتیں ہیں: ایک نکاح اور دوسری شرعی باندی (ملکِ یمین)۔ جب اﷲ تعالیٰ نے خود ان قربت کی دو صورتوں کو جائز قرار دے کر باقی تمام دروازے حرام کر دیئے تو کون ہے جو اﷲ کے حلال کو حرام یا حرام کو حلال قررا دے؟ حلال و حرام ہونے کا سبب اﷲ کا حکم ہے جس نے نکاح اور ملکِ یمین کو صحتِ قربت کا ذریعہ قرار دے کر باقی تمام صورتوں کو حرام و ممنوع قرار دے دیا۔

لونڈی اور غلام یا تو وہ وہ لوگ تھے جو مسلمانوں کے خلاف جنگ کرتے ہوئے جنگی قیدی بنے یا پھر وہ لوگ تھے جن کو صدیوں سے معاشرے کے غالب طبقے نے دبا رکھا تھا۔ ان کی باقاعدہ تجارت ہوتی تھی اور منڈی میں قیمت لگتی تھی۔ اس غلامی کی قانونی پوزیشن یہ تھی کہ لونڈی اور غلام دنیا میں کسی چیز کے مالک نہ تھے۔ جب سے انہوں نے ہوش سنبھالا اپنا بکنا، بکانا دیکھا۔ نہ کوئی گھر، نہ وطن، نہ ان کی سوچ، نہ رائے، نہ ارادہ و اختیار، اس غلامی کو اسلام نے مختلف صورتوں سے کفارات و صدقات کی شکل میں ختم کیا اور کسی آزاد کو غلام بنانا گناہِ کبیرہ قرار دیا۔ گویا آئندہ کے لئے غلامی کا مستقل طور پر قلع قمع کر دیا۔

آج کے دور میں غلام، کنیز یا لونڈی کا کلچر موجود نہیں ہے۔ خواتین کو اغوا کر کے ان کی خرید و فروخت کرنا حرام ہے۔ یہ لونڈی اور کنیز کے زمرے میں نہیں آتیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری