اللہ تعالیٰ‌ کے حکم اور رضا میں‌ کیا فرق ہے؟


سوال نمبر:3771
السلام علیکم! خدا کے احکام اور خواہش میں کیا فرق ہے؟

  • سائل: جاوید اقبالمقام: لاہور، پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 30 جنوری 2016ء

زمرہ: ایمانیات  |  ایمان باللہ

جواب:

اوامر کو بجا لانے اور نواہی کو ترک کرنے سے متعلق اللہ تعالیٰ نے جو کچھ صادر کیا ہے، وہ احکام (حکم کی جمع) ہیں۔ جیسے ارشاد ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الْأَمْرِ مِنكُمْ.

اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو اوراپنے میں سے (اہلِ حق) صاحبانِ اَمر کی۔

النساء، 4: 59

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُلُواْ مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُواْ لِلّهِ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ.

اے ایمان والو! ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ جو ہم نے تمہیں عطا کی ہیں اور اﷲ کا شکر ادا کرو اگر تم صرف اسی کی بندگی بجا لاتے ہو۔

البقرة، 2: 172

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَأْكُلُواْ الرِّبَا أَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً وَاتَّقُواْ اللّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ.

اے ایمان والو! دو گنا اور چوگنا کر کے سود مت کھایا کرو، اور اللہ سے ڈرا کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔

آل عمران، 3: 130

یہ احکامِ الٰہی کی چند ایک مثالیں ہیں۔ قرآنِ مجید میں بےشمار مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اپنے احکام بیان فرمائے ہیں۔

آپ نے اپنے سوال کے دوسرے حصے میں اللہ تعالیٰ کی خواہش کی وضاحت پوچھی ہے۔ خواہش کا لفظ اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنا درست نہیں، بلکہ اس کی بجائے رضا کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے احکام، صریح اور واضح انداز میں بیان کر دیے ہیں اور انسان کو بتا دیا ہے کہ اوامر کو بجا لانے اور نواہی کو ترک کرنے سے میں راضی ہوتا ہوں، مگر انسان کو ان اوامر و نواہی کے بجالانے پر مجبور نہیں کیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ.

اور فرما دیجئے کہ (یہ) حق تمہارے رب کی طرف سے ہے، پس جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے انکار کردے۔

الکهف، 18: 29

اور فرمایا:

وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِO

اور ہم نے اسے (خیر و شر کے) دو نمایاں راستے (بھی) دکھا دیئے۔

البلد، 90: 10

اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں پر انسان کو اختیار و ارادہ کی آزادی بخشی ہے، ان پر اسے اجر دینے اور مواخذہ کرنے کا وعدہ بھی فرما رکھا ہے۔ یہ اختیار و ارادہ انسان کا ذاتی نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ ہی کا عطاکردہ ہے اور اس کا استعمال اگر انسان، اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق کرے تو اس سے رضائے الٰہی عطا ہوتی ہے۔ رضا، اللہ تعالیٰ اور بندے دونوں کی جانب سے ہوتی ہے قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے رضوان کا لفظ مخصوص کیا ہے۔ بندے کے راضی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ حق تعالیٰ سے راضی ہو، دین مبین اسلام سے راضی ہو، اللہ کے اس رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ر اضی ہو جنہوں نے یہ دین مبین ہم تک پہنچایا اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر دل سے یقین رکھے اور اپنے اوپر آنے والی آزمائشوں اور مصیبتوں کو سکون اور اطمینان سے قبول کرے۔ پس جو شخص اللہ کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کرے، اسے اپنا نصب العین بنائے اور اس کی خاطر پیہم کوشش کرے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی