’ان شاءاللہ‘ کہہ کر قسم کھانے کا کیا حکم ہے؟


سوال نمبر:3690

السلام عليكم ورحمۃ اللہ وبركاتہ! مفتى صاحب میں دوسری شادی کرنے کے لیے نے اپنی بیوی کو ایک سال تک راضی کرتا رہا اور اس کو سمجھانے کی بہت کوشش کی۔ میری خواہش تھی کہ وہ مجھے دوسری شادی کی اجازت دے، لیکن وہ اس بات کے لیے تیار نہ ہوئی۔ دوسری شادی کی صورت میں اس نے مجھے چھوڑ کر جانے کی دھمکی دی اور مجھ سے قرآن کی قسم لی کہ میں دوسری شادی نہیں کروں گا۔ میں نے مجبوراً قسم کھائی کہ میں نے دوسری شادی نہ کی ہے اور ان شاءاللہ کروں گا بھی نہیں۔ میری ہر کوشش کے باوجود جب وہ راضی نہ ہوئی تو میں نے چھپ کر دوسری شادی کرلی۔ دوسری شادی کے بعد میں نے پہلی بیوی سے کہا کہ میرا دوست کچھ دن میرے پاس رہنے آرہا ہے تم کچھ دنوں کے لیے اپنی اماں کے گھر چلی جاؤ۔ اس کے جانے کے بعد میں نے دوسری بیوی کو اسی کے کمرے ٹھہرایا۔ بات چھپ نہ سکی اور سب کو معلوم ہوگیا کہ میں نے دوسری شادی کر لی ہے۔ ایک ہفتے بعد میں نے دونوں بیویوں کو الگ الگ گھر میں رکھنا شروع کر دیا اور مقدور بھر برابری اور انصاف کا برتاؤ کرتا ہوں۔

اب میری پہلی بیوی کے گھر والے کہہ رہے ہیں کہ مجھے ان کی بیٹی سے شادی کرنے سے پہلے بتانا چاہیے تھا کہ میں مستقبل میں دوسری شادی کروں گا۔ ان کے مطابق میں نے انہیں دھوکہ دیا ہے۔ میں نے قرآن کی قسم بھی توڑی ہے۔ دوسری بیوی کو پہلی بیوی کے کمرے ٹھہرا کر میں نے پہلی پر ظلم کیا ہے۔

براہ مہربانی راہنمائی کیجیئے کہ کیا دوسری بیوی کو پہلی بیوی کے کمرے ٹھہرانا ظلم ہے؟ جس مجبوری میں نے قسم اٹھائی تھی کیا وہ قسم ہوئی؟ اور کیا مجھے اس کے توڑنے کا کفارہ ادا کرنا پڑے گا؟ مذکورہ مسئلے کو کس طرح حل کیا جائے؟

بيّنوا تؤجروا

  • سائل: عبداللہ بخاریمقام: كراچی
  • تاریخ اشاعت: 31 اگست 2015ء

زمرہ: قسم اور کفارہ قسم

جواب:

آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:

دوسری بیوی کو پہلی بیوی کے کمرے میں چند دن ٹھہرانے سے پہلی پر کوئی ظلم نہیں ہوا۔ ایسا کرنے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں۔ اگر آپ ایک بیوی کے کہنے پر یا ایک کی وجہ سے دوسری بیوی کو گھر سے نکال دیں یا طلاق دے دیں تو یہ ظلم ہوگا اور عنداللہ آپ کی پکڑ ہوگی۔ اس لیے دونوں میں سے کسی ایک کی وجہ سے دوسری سے زیادتی نہ کیجیے۔

قسم دیتے وقت آپ نے ’ان شاءاللہ‘ کہا جس کی وجہ سے قسم لغو ہوگئی۔ ایسی قسموں کو توڑنے کا کفارہ نہیں ہوتا۔ حدیثِ مبارکہ میں رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:

عَنِ ابْنِ عُمَرَ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ قَالَ مَنْ حَلَفَ عَلَی يَمِينٍ فَقَالَ إِنْ شَاءَ اﷲُ فَقَدْ اسْتَثْنَی

’’حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مرفوعاً روایت کرتے ہوئے فرمایا: جو کسی بات پر قسم کھائے اور ان شاءاللہ کہے تو اس نے استثناء کرلیا۔‘‘

  1. احمد بن حنبل، المسند، 2: 10، رقم: 4581، موسسة قرطبة، مصر
  2. ابي داؤد، السنن، 3: 225، رقم: 3261، دار الفکر
  3. ترمذي، السنن، 4: 108، رقم: 1531، دار احياء التراث العربي بيروت

تیسری بات آپ نے پوچھی کہ مذکورہ مسئلہ کو کس طرح حل کیا جائے؟ اس کے لئے پہلے اس حوالہ سے چند احکام شرعی کا جاننا اور سمجھنا بہت ضروری ہے۔ وہ یہ کہ قرآن مجید فرقان حمید میں دوسری، تیسری یا چوتھی شادی کے لئے عدل وانصاف شرط ہے:

فَانْکِحُوْا مَاطَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ج فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً

’’تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لیے پسندیدہ اور حلال ہوں، دو دو اور تین تین اور چار چار (مگر یہ اجازت بشرطِ عدل ہے) پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم (زائد بیویوں میں) عدل نہیں کر سکو گے تو صرف ایک ہی عورت سے (نکاح کرو)۔‘‘

النساء، 4: 3

بلکہ حدیث مبارکہ میں تو ایک شادی بھی استطاعت کے ساتھ مشروط ہے، اگر کوئی شخص ایک بیوی کی بھی رہائش، کھانا پینا اور دیگر اخراجات پورے نہیں کر سکتا تو اسے روزے رکھنے کا کہا گیا ہے:

حَدَّثَنَا عَبْدَانُ عَنْ اَبِي حَمْزَةَ عَنِ الْاَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ بَيْنَا اَنَا اَمْشِي مَعَ عَبْدِ اﷲِ فَقَالَ کُنَّا مَعَ النَّبِيِّ فَقَالَ مَنِ اسْتَطَاعَ الْبَاءَ ةَ فَلْيَتَزَوَّجْ فَإِنَّهُ اَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَاَحْصَنُ لِلْفَرْجِ وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ

’’حضرات عبدان، ابو حمزہ، اعمش، ابراہیم، علقمہ اور حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ ہم نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے تو آپ نے فرمایا: تم میں سے جو شخص گھر بسانے کی استطاعت رکھتا ہو وہ نکاح کرے کیونکہ یہ نظر کو جھکاتا ہے اور شرمگاہ کے لیے اچھا ہے اور جو ایسا کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو وہ روزہ رکھے کیونکہ یہ شہوت کو گھٹاتا ہے۔‘‘

  1. بخاري، الصحيح، 2: 673، رقم: 1806، دار ابن کثير اليمامة بيروت
  2. مسلم، الصحيح، 2: 1019، رقم: 1400، دار احياء التراث العربي بيروت
  3. احمد بن حنبل، المسند، 1: 378، رقم: 3592
  4. ابي داؤد، السنن، 2: 219، رقم: 2046
  5. ابن ماجه، السنن، 1: 592، رقم: 1845، دار الفکر بيروت

اگر آپ دونوں بیویوں کے حقوق پورے کرنے کی طاقت رکھتے ہیں تو رہائش، کھانے پینے، ان کے ساتھ وقت گزارنے اور دیگر معاملات میں عدل وانصاف قائم رکھیں۔ کسی ایک کی طرف زیادہ مائل ہونے کی بجائے دونوں میں برابری کا برتاؤ کریں، ورنہ اس کے بارے میں وعید سنائی گئی ہے:

عَنْ اَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اﷲِ مَنْ کَانَتْ لَهُ إِمْرَاَتَانِ يَمِيلُ مَعَ إِحْدَاهُمَا عَلَی الْاُخْرَی جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَاَحَدُ شِقَّيْهِ سَاقِطٌ

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس کی دو بیویاں ہوں اور وہ ایک کی طرف مائل ہو تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا ایک پہلو ساقط (گرا ہوا) ہو گا۔‘‘

  1. احمد بن حنبل، المسند، 2: 347، رقم: 8549
  2. ابن ماجه، السنن، 1: 633، رقم: 1969
  3. ابن حبان، الصحيح، 10: 7، رقم: 4207، موسسة الرسالة بيروت
  4. ابن ابي شيبة، المصنف، 4: 37، رقم: 17548، مکتبة الرشد الرياض
  5. بيهقي، السنن الکبری، 7: 297، رقم: 14515، مکتبة دار الباز مکة المکرمة

سلیمان بن داؤد، اسحاق بن راہویہ، عبداﷲ بن علی بن الجارود، علی بن علی بن ابو بکر اور دیگر محدثین نے بھی اس حدیث مبارکہ کو روایت کیا ہے۔

لہٰذا آپ کا فریضہ ہے کہ دونوں بیویوں کے حقوق کا خیال رکھیں اور ان کے درمیان عدل و انصاف قائم کریں۔ ان شاءاللہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی