مکان وراثت میں تقسیم ہونے کے بعد بیوہ کی رہائش کی صورت کیا ہوگی؟


سوال نمبر:3683
السلام علیکم! کیا مرد کے فوت ہوتے ہی وہ مکان جس میں اس کی بیوی رہتی ہے وراثت میں تقسیم کرنا پڑے گا؟ اِس صورت میں وہ بیوی جو چالیس سال سے رہ رہی تھی بےگھر ہو جائےگی۔ براہ مہربانی راہنمائی فرمائیں۔

  • سائل: ایم۔ ایچ۔ قادریمقام: برطانیہ عظمیٰ
  • تاریخ اشاعت: 31 اگست 2015ء

زمرہ: تقسیمِ وراثت

جواب:

اسلام نے عورت کو زندگی کے تمام مراحل پر مالی، معاشرتی اور تمدنی تحفظ عطا کیا ہے۔ اسے معاشرے میں مرد کی طرح ، بلکہ بعض حیثیتوں سے مرد سے بڑھ کر عزت و احترام کا مقام حاصل ہے۔ پیدائش سے وفات تک عورت کی تمام معاشی ضروریات اس کے مرد رشتے داروں کے ذمہ ہیں۔ بیٹی کی صورت میں باپ اس کی کفالت کرتا ہے۔ باپ زندہ نہ ہو تو یہ فریضہ بھائی کے ذمہ ہے۔ شادی کے بعد اس کی تمام مالی ضروریات پورا کرنا، اسے کھانا، رہائش اور دیگر ضروریاتِ زندگی فراہم کرنا اس کے شوہر کے ذمہ داری ہے۔ شوہر فوت ہو جائے، اور بچے نابالغ ہوں تو بیوہ کے احکام کے تحت عام مسلمانوں پر اس کی کفالت کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے۔ بیٹے جوان ہوں تو ماں کی کفالت ان کے ذمہ ہے۔ گویا اسلام نے عورت کی پیدائش سے لیکر اس کی وفات تک کے ہر مرحلے میں اس کی معاشی کفالت اور اس کو تحفظ کی فراہمی والد، شوہر اور بیٹے کی ذمہ داری لگائی ہے۔ معاشی ذمہ داریوں سے آزادی کے باوجود اسلام نے عورت کو وراثت سے محروم نہیں کیا۔ اس کے شوہر کی وفات کے بعد اگر رہائشی مکان وراثت میں تقسیم ہو جاتا ہے تو بیوہ اپنے بچوں کے ساتھ رہے گی اور اس کی کفالت اولاد کا فریضہ ہے۔ اگر وہ کسی دوسری جگہ شادی کر لیتی ہے تو اس کا نان و نفقہ شوہر کے ذمہ داری ہوگی۔ اگر اولاد نہ ہو اور شادی کی عمر بھی نہ ہو تو ورثاء کا اخلاقی فریضہ ہے کہ ایسی عمر رسیدہ بیوہ کو بےگھر نہ کریں، اور مکان تقسیم کرنے کی بجائے اپنا حصہ بھی اسے ہی سونپ دیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری