بلاارادہ دی گئی طلاقِ صریح کا کیا حکم ہے؟


سوال نمبر:3659
السلام علیکم! جناب میں نے اپنی زوجہ کو بولا کہ میں‌ تمہیں طلاق دیتا ہوں، جبکہ میں نے یہ ارادتاً نہیں کہا تھا۔ میرا ارادہ طلاق کا نہیں تھا؟

  • سائل: عرفان بشیرمقام: کراچی
  • تاریخ اشاعت: 11 جون 2015ء

زمرہ: طلاق

جواب:

حدیثِ مبارکہ میں آقا علیہ الصلاۃ و السلام کا ارشاد ہے:

عَنْ اَبِي هُرَيْرَةَ اَنَّ رَسُولَ اﷲِ قَالَ ثَلَاثٌ جَدُّهُنَّ جَدٌّ وَهَزْلُهُنَّ جَدٌّ النِّکَاحُ وَالطَّلَاقُ وَالرَّجْعَةُ

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تین چیزیں ایسی ہیں کہ ارادہ کے ساتھ کی جائیں یا مذاق میں کی جائیں (دونوں صورتوں میں) صحیح مراد ہیں: نکاح، طلاق اور رجوع‘‘

  1. ابي داود، السنن، 2: 259، رقم: 2194، دار الفکر
  2. ترمذي، السنن، 3: 490، رقم: 1184، دار احياء التراث العربي بيروت
  3. ابن ماجه، السنن، 1: 658، رقم: 2039، دار الفکر بيروت

درج بالا فرمانِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے معلوم ہوا کہ جب طلاق صریح الفاظ کے ساتھ دی جائے تو وہ بلا ارادہ بھی واقع ہوجاتی ہے۔ ارادے کا اعتبار اس وقت کیا جاتا ہے جب طلاق صریح الفاظ کی بجائے الفاظِ کنایہ سے دی جائے۔

بصورتِ مسئلہ اگر آپ نے بلاجبر و اکرہ، بقائمی ہوش و حواس اپنی بیوی کو کہا کہ ’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘ تو ایک طلاق واقع ہو چکی ہے، خواہ آپ کا ارادہ تھا یا نہیں۔ اب آپ اگر رجوع کرنا چاہتے ہیں تو عدت کے اندر رجوع کرلیں یا پھر عدت کے بعد تجدید نکاح کر سکتے ہیں۔ عدت گزرنے کے بعد آپ کا نکاح ختم ہوجائے گا، اور اگر آپ تجدید نکاح نہیں کرتے تو آپ کی بیوی آزاد ہے جہاں چاہے نکاح کرسکتی ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری