حاملہ عورت کو بلاجواز طلاق دینے والے شوہر کے بارے میں کیا حکم ہے؟


سوال نمبر:3637
السلام علیکم! کیا حاملہ عورت کو طلاق دینے کی کوئی سزا ہے؟ طلاق بھی بنا کسی جواز کے اور طلاق نامے پر جھوٹی کہانی لکھوا کے۔ ایسے مرد کے لیے کوئی سزا؟ اور ایسی عورت کے لیے کوئی جزا یا سلہ؟

  • سائل: عائشہمقام: راولپنڈی
  • تاریخ اشاعت: 27 مئی 2015ء

زمرہ: زوجین کے حقوق و فرائض

جواب:

اگر میاں بیوی کا اکٹھے رہنا مشکل ہو جائے اور وہ علیحدگی چاہتے ہوں تو طلاق دینے کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ جب بیوی ماہواری سے پاک ہو تو اس سے جنسی تعلق قائم کئے بغیر ایک ’رجعی طلاق‘ دی جائے۔ اس صورت میں عدّت کے اندر رُجوع کرنے کی گنجائش ہوگی، اور عدّت کے بعد اگر فریقین چاہیں تو دوبارہ نکاح ہوسکے گا۔

حالتِ حمل یا ماہواری یا ایسا طہر جس میں صحبت ہوئی یا ایک ہی لفظ سے یا ایک ہی مجلس میں یا ایک ہی طہر میں تین طلاقیں دینا گناہ ہے، مگر طلاق واقع ہوجائے گی۔ مذکورہ صورتوں میں اگر ایک طلاق دی ہے تو ایک واقع ہوگی، اگر دو طلاقیں دیں ہیں تو دو واقع ہوں گی اور اگر اکٹھی تین طلاقیں دے دیں تو تینوں واقع ہوگئیں، خواہ ایک لفظ میں دی ہوں، یا ایک مجلس میں، یا ایک طہر میں۔ اکٹھی تین طلاقیں دینے والے شخص کے لیے پاکستان کی عائلی قوانین میں سزا درج ہے۔

اگر مرد بلاجواز طلاق دیتا ہے تو سخت گناہ کا مرتکب ہے۔ ایسی مظلومہ عورت کو جزا یا صلہ دینا اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری