کیا دورانِ حمل نکاح منعقد ہو جاتا ہے؟


سوال نمبر:3603
السلام علیکم! علمائےدین کی بارگاہ میں ایک سوال عرض ہے کہ اگر شادی سے پہلے کوئی عورت حاملہ ہو جائے تو کیا وہ نکاح کرسکتی ہے؟ اور اگر نکاح کرلے تو وہ حمل حلال رہے گا یا حرام؟ کیا دوران حمل نکاح ہو سکتا ہے؟ یا خاتون کو عدت گزارنی پڑے گی؟

  • سائل: ندا بانومقام: لکھنؤ
  • تاریخ اشاعت: 05 مئی 2015ء

زمرہ: زنا و بدکاری  |  نکاح

جواب:

جب کسی مرد اور عورت کی غیر شرعی یا غیر قانونی مباشرت سے عورت کو حمل ٹھہر جائے تو جس مرد کے ساتھ زنا سے حمل ٹھہرا ہے دورانِ حمل اسی کے ساتھ نکاح منعقد ہوجاتا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ زانی اور زانیہ کا نکاح کروا دیا جائے کیونکہ زانیہ کو حمل ٹھہرنے کی صورت میں کوئی دوسرا اس کے ساتھ نکاح کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا، اگر کوئی نکاح کر بھی لے تو کئی طرح کے مسائل جنم لیتے ہیں۔ اگر کسی دوسرے شخص سے نکاح کرنا ہے تو وضع حمل (بچے کی پیدائش) کے بعد کیا جائے گا۔

زنا سے ٹھہرنے والے حمل سے جو پچہ پیدا ہوگا وہ ناجائز ہی ہے تاہم اس کی پرورش اور تعلیم و تربیت والدین ہی کے ذمہ ہے۔ وہ ناپاک نہیں ہے، اور اسی محبت کا مستحق ہے جو اولاد کے ساتھ کی جاتی ہے۔ زنا کا گناہ زانی اور زانیہ پر ہے نہ کہ اس بچے پر جو زنا سے پیدا ہوا۔ شرعاً اس کا نسب غیرقانونی باپ سے ثابت نہیں ہوگا، خواہ عورت نے اس مرد سے شادی کرلی ہو۔ ناجائز اولاد صرف ماں کی وارث ہوگی۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی