کیا قضا میں‌ بھی نمازوں‌ کی ترتیب لازم ہے؟


سوال نمبر:3523

سوال نمبر 3041 میں سوال کیا گیا کہ کیا عصر کی قضا نماز مغرب کی جماعت کے ساتھ ادا کی جاسکتی ہے؟

جس کا جواب دیتے ہوئے آپ نے فرمایا:

لہذا سورج غروب ہونے سے پانچ منٹ پہلے تک اگر آپ نماز عصر ادا کر سکتے ہوں تو کر لیں نہیں تو نماز مغرب باجماعت ادا کرنے کے بعد چار فرض قضا کر لیں۔

جبکہ نیچے بیان کی گئی روایت کے مطابق مقتدی کو پھر سے مغرب بھی پڑھنی ہوگی:

بيهقي، السنن الكبرى، أَبْوَابِ صِفَةِ الصَّلَاةِ، مَنْ ذَكَرَ صَلَاةً وَهُوَ فِي أُخْرَى، 2: 313

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِي قَالَا: ثنا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ الصَّغَانِيُّ، أنبأ إِسْمَاعِيلُ بْنُ بَسَّامٍ أَبُو إِبْرَاهِيمَ التَّرْجُمَانِيُّ، ثنا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ نَسِيَ صَلَاةً فَلَمْ يَذْكُرْهَا، إِلَّا وَهُوَ مَعَ الْإِمَامِ فَلْيُصَلِّ مَعَ الْإِمَامِ، فَإِذَا فَرَغَ مِنَ صَلَاتِهِ فَلْيُعِدِ الصَّلَاةَ الَّتِي نَسِيَ، ثُمَّ لِيُعِدِ الصَّلَاةَ الَّتِي صَلَّى مَعَ الْإِمَامِ

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کوئی شخص نماز پڑھنا بھول گیا اور اُس کو یاد اُس وقت آیا جب وہ اِمام کے ساتھ دوسری نماز پڑھ رہاہو، تو اُس شخص کو چاہیے کہ اِمام سے فارغ ہوتے ہی چھوٹی ہوئی نماز پڑھ لے پھر اِمام کے ساتھ پڑھی گئی نماز کو دوبارہ پڑھے۔ (نمازوں کی ترتیب قائم رکھے)

براہ کرم وضاحت فرمادیں

  • سائل: احمد بن محمودمقام: حیدرآباد (ہندوستان)
  • تاریخ اشاعت: 16 مارچ 2015ء

زمرہ: نماز  |  نماز کی قضاء

جواب:

صاحب ترتیب کے لیے ضروری ہے کہ اگر اس کی کوئی نماز رہ جائے تو وہ پہلے اُس نماز کی قضاء پڑھے گا، پھر اگلی نماز ادا کرے گا۔ ایسا شخص جس کی بالغ ہونے کے بعد زندگی میں کبھی بھی اکٹھی چھ یا چھ سے زائد نمازیں قضاء نہ ہوئی ہوں صاحب ترتیب کہلاتا ہے۔ جب بھی اکٹھی چھ یا چھ سے زائد قضاء ہو جائیں پھر وہ صاحب ترتیب نہیں رہے گا۔ فقہاء کرام فرماتے ہیں:

ومن فاتته صلاة قضاها اذا ذکرها وقدمها علی فرض الوقت والاصل فيه ان الترتيب بين الفوائت وفرض الوقت عندنا مستحق وعند الشافعي رحمه اﷲ مستحب لان کل فرض اصل بنفسه فلا يکون شرطا لغيره ولنا قوله عليه الصلاة والسلام من نام عن صلاة او نسيها فلم يذکرها الا وهو مع الامام فليصل التي هو فيها ثم ليصل التي ذکرها ثم ليعد التي صلی مع الامام ولو خاف فوت الوقت يقدّم الوقتیة ثم يقضيها لان الترتيب يسقط بضيق الوقت وکذا بالنسيان وکثرة الفوائت کيلا يودّي الی تفویت الوقتیة ولو قدم الفائتة جاز لان النهي عن تقديمها لمعنی في غيرها بخلاف ما اذا کان في الوقت سعة وقدّم الوقتية حيث لا يجوز لانه اداها قبل وقتها الثابت بالحديث ولو فاتته صلوات رتبها في القضاء کما وجبت في الاصل لان النبي عليه الصلاة والسلام شغل عن اربع صلوات يوم الخندق فقضاهن مرتبا ثم قال صلوا کمارايتموني اصلي الا ان تزيد الفوائت علی ست صلوات لان الفوائت قد کثرت فيسقط الترتيب فيما بين الفوائت نفسها کما سقط بينها وبين الوقتية وحد الکثرة ان تصير الفوائت ستا الخروج وقت الصلاة السادسة وهو المراد بالمذکور في الجامع الصغير وهو قوله وان فاتته اکثر من صلاة يوم وليلة اجزاته التي بدابها لانه اذا زاد علی يوم وليلة تصير ستا وعن محمد رحمه اﷲ انه اعتبر دخول وقت السادسة والاول هو الصحيح لان الکثرة بالدخول في حد لتکرار وذلک في الاول

جس شخص کی نماز فوت ہو گئی تو اس کو جب یاد آئے قضا کرے اور اسے فرض وقتی پر مقدم کرے۔ اور ہمارے (یعنی احناف کے) نزدیک اصل میں قضاؤں اور فرض وقتی کے درمیان ترتیب رکھنا ضروری ہے۔ امام شافعی رحمہ اﷲ کے نزدیک ترتیب مستحب ہے۔ ان (امام شافعی) کی دلیل یہ ہے کہ ہر فرض بذات خود اصل ہے، وہ دوسرے کے لئے شرط نہ ہوگا۔ ہماری (احناف کی) دلیل آقا علیہ الصلاۃ والسلام کا یہ فرمان ہے کہ جو شخص نماز کے وقت سو گیا یا بھول گیا اور اُس کو یاد اُس وقت آیا جب وہ امام کے ساتھ دوسری نماز پڑھ رہا ہو، تو یہ پڑھ لے جس میں موجود ہے، پھر وہ پڑے جس کو یاد کیا، پھر اس کو دوبارہ جو امام کے ساتھ پڑھی ہے۔ اور اگر وقت نکل جانے کا خوف ہو تو وقتی نماز کو پہلے پڑھے، پھر فوت ہونے والی کو قضاء کرے۔ کیونکہ وقت کی تنگی، بھول جانے اور فوت شدہ (نمازوں) کی کثرت سے ترتیب ساقط ہو جاتی ہے، تاکہ اس کی وجہ سے وقتی نماز فوت نہ ہو جائے۔ اور اگر اس شخص نے تنگی وقت کے باوجود فوت شدہ کو پہلے پڑھ لیا تو جائز ہے کیونکہ فوت شدہ کو ایسی حالت تنگی میں پہلے پڑھنے کی جو ممانعت ہے اس کی وجہ اور ہے۔ بر خلاف اس کے جب کہ وقت میں وسعت ہو۔ اور اس نے وقتی نماز کو مقدم کر دیا تو یہ جائز نہیں ہوگی۔ کیونکہ اس نے وقتی (نماز) کو اس کے وقت سے پہلے ادا کیا جو حدیث سے ثابت ہے۔ اور اگر کسی کی کئی نمازیں فوت ہو گئی ہوں تو قضاء کرتے وقت ان کو ترتیب وار قضاء کرے، جیسے اصل میں واجب ہوئیں۔ کیونکہ آقا علیہ السلام جنگ خندق کے دن چار نمازوں میں مصروف رہے تو آپ علیہ السلام نے اُن کو ترتیب وار قضاء کیا۔ پھر فرمایا: جیسے تم مجھے پڑھتا دیکھ رہے ہو اسی طرح تم بھی پڑھو۔ ہاں اگر فوت شدہ نمازیں چھ سے زائد ہو جائیں تو پھر ترتیب ساقط ہو جائے گی۔ جیسے فوت شدہ اور وقتی نماز کی ترتیب ختم ہو جائے گی۔ حد کثرت یہ ہے کہ چھ نمازیں قضاء ہو جائیں یعنی چھٹی کا وقت نکل جائے اور یہی جامع صغیر میں ہے۔ اگر اس سے دن رات کی نمازوں سے زیادہ فوت ہو گئیں تو جائز ہو جائے گی وہ نماز جس سے ابتداء کی تھی کیونکہ جب ایک دن رات پر زیادہ ہوئیں تو چھ ہو جائیں گی۔ اور امام محمد رحمہ اﷲ سے یہ بھی روایت ہے کہ چھٹی کا وقت شروع ہوتے ہی ترتیب ختم ہو جائے گی۔ قولِ اوّل ہی صحیح ہے۔ کیونکہ کثرت تو حد تکرار میں داخل ہونے سے ہوتی ہے اور یہ پہلے قول پر ہوگا۔

(مذکورہ بالا عبارت ہدایہ سے لی گئی ہے)

  1. ابو حسن علي بن ابي بکر المرغیناني، الهدایة شرح البدایة، 1: 72،73، المکتبة الاسلامیة
  2. کمال الدین، شرح فتح القدیر، 1: 490، 491، دار الفکر بیروت
  3. ابن عابدین شامي، ردالمحتار، 2: 62، دار الفکر للطباعة والنشر بیروت
  4. ابن نجیم، البحر الرائق، 2: 92، 93، دار المعرفة بیروت
  5. الشیخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاوی، الهندیة، 1: 121، دار الفکر

لہٰذا صاحب ترتیب کے لیے قضاء نماز کو پہلے پڑھنا ضروری ہے۔ جس کی اکٹھی چھ نمازوں سے زیادہ قضاء ہو جائیں تو اس کے لئے یہ پابندی نہیں ہے کہ وہ پہلے قضاء کرے اور پھر وقتی نماز پڑھے یعنی نمازوں کی ترتیب قائم رکھے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی