سود کا کفارہ کیا ہے؟


سوال نمبر:3522

السلام علیکم!

محترم جناب مفتی عبدالقیوم ہزاروی صاحب! عرض ہے کہ اگر کسی شخص نے اپنی حلال رقم مرکز قومی بچت (‏National saving centre‏)‏‎ کی ماہانا منافع اسکیم میں جمع کروادی اور لاعلمی کی وجہ سے ماہانا منافع کی مد میں سود لیتا رہا اور سود کی رقم کو اپنے روزمرہ کے اخراجات میں استعمال کرتا رہا ہے، تفصیل کچھ اس طرح ہے:

مرکز قومی بچت میں جمع کروائی گئی کی اصل رقم دس لاکھ (1000000) روپے‎

رقم جمع ہوئے کو مدت آٹھ (8) سال سے زائد ہو چکی ہے‎

تخمینہ کے مطابق اب تک ماہانا منافع کی مد میں لیا گیا سود تقریبا بارہ (12) لاکھ کے قریب بنتا ہے، جس میں سے اکثریت رقم (سود) تو ساتھ ساتھ گھر کے اخراجات میں خرچ ہوتی رہی اور کچھ رقم (سود) کم وبیش تین (3) لاکھ کے قریب ابھی پڑی ہے۔

اصل حلال رقم پر پچھلے آٹھ سالو ں سے زکوٰۃ بھی ادا نھیں کی گئی۔ علم ہونے کے بعد اب اصل (حلال) رقم وہاں سے نکلوا لی گئی ہے اور مسائل کچھ اس طرح سے ہیں:

کیا اصل رقم (دس لاکھ جو محفوظ ہے اور جس پر سود لیا گیا) اب ناپاک ہو چکی ہے یا اسے اب بھی پاک سمجھا جاۓ گا؟ (کیونکہ اس پر لیا گیا سود اصل رقم سے بڑھ چکا ہے اگرچہ کہ وہ استعمال ہو چکا ہے)

اصل رقم (اگرپاک ہے تو اس) پر گذشتہ سالوں کی زکوٰۃ کیسے اور کتنی بنتی ہے؟

سود کی وہ رقم جو پڑی ہے (اندازاً 3 لاکھ) اسے کہاں استعمال کیا جائے؟ اور جو رقم خرچ ہو چکی ہے (اندازاً 9 لاکھ) اس کا ازالہ (یا کفارہ) کیسے کیا جائے؟

براہ مہربانی ان تمام مسائل کا حل شریعت کی روشنی میں تفصیل کے ساتھ ارشاد فرمائیں۔ مہربانی فرماتے ہوئے جواب مجھے پرسنلی ای میل کے ذریعے ارشاد فرمائیں اور ویب سائٹ پر شائع نہ فرمائیں۔

شکریہ.

اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے

  • سائل: محمد شعیبمقام: نامعلوم
  • تاریخ اشاعت: 04 مارچ 2015ء

زمرہ: سود

جواب:

جو سودی رقم استعمال کرچکے ہیں اس کا کفارہ استغفار، خالص توبہ، افسوس، ماضی کے عمل پر شرمندگی، اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ ارادہ کرنا ہے۔ قوی امکان ہے کہ اللہ تعالی ماضی میں جو لغزش آپ سے ہوئی ہے اسکو معاف کردے، اور آپ کی مغفرت فرمادے۔ جو سودی رقم آپ کے پاس پڑی ہے وہ کسی غریب شخص یا فلاح ادارے کو دے دیں۔ ایسی رقم صدقہ کرنے سے ثواب ملنے یا نہ ملنے کا معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیں۔

اصل رقم پاک ہے اس کو کسی بھی جائز کام میں خرچ کر سکتے ہیں۔ آٹھ سال کی جو زکوٰۃ بنتی ہے وہ ابھی بھی دے سکتے ہیں۔ ہر سال کا حساب لگا کر جو رقم بنے دے دیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی