بینکوں‌ سے مالی معاملات طے کرنے کا درست طریقہ کیا ہے؟


سوال نمبر:3513

محترم جناب مفتی صاحب السلام علیکم! عرض ہے کہ میں نے کچھ رقم میزان اسلامی بنک کی ماہانا منافع سکیم میں جمع کروا ئی ہے۔ بنک والوں کے کہنے کے مطابق وہ اسلامی طریقے کے مطابق یہ رقم کاروبار میں لگاتے ہیں اور حلال منافع ادا کرتے ہیں۔ جبکہ میں اس معاملے میں مطمئن نہیں ہوں۔ کیونکہ اسلامک بینکنگ کے بارے میں دو طرح کے خیال پائے جاتے ہیں:

  1. اکثر لوگ کہتے ہیں کہ جتنے بھی اسلامی بنک ہیں یہ صرف اسلام کا نام استعمال کرتے ہیں جبکہ اندر سے یہ بھی روائتی بنکوں کی طرح کام کرتے ہیں، اس لئے ان کےساتھ معاملات نہیں کرنے چاہئیں۔
  2. ایک طبقے کا نظریہ یہ بھی ہے کہ اگر اسلامی بنک والے حقیقت میں اسلامی طریقے سے لین دین نہیں کرتے اور سودی کاروبار کرتے ہیں تو گناہ کے ذمہ دار بنک والے ہوں گے اور بنک میں رقوم جمع کروانے والوں پر کوئی پکڑ نہیں۔

اوپربیان کردہ صورت حال کی روشنی میں براہ مہربانی تفصیل سے وضاحت فرما دیں کہ:

  • شریعت کی روشنی میں تقوى اختيار كرتے ہوئے ان (اسلامی) بنکوں کے ساتھ معاملات کرنا جائز ہے؟ اور ان کی طرف سے ملنے والا منافع ہمارے لئے حلال ہے؟ اس میں کوئی کرہت وغیرہ تو نہیں؟
  • آپ کے علم، تحقیق اور تجربے کے مطابق کیا میزان بنک واقعی ایک اسلامی بنک ہے؟

  • سائل: محمد شعیبمقام: وہاڑی
  • تاریخ اشاعت: 04 مارچ 2015ء

زمرہ: جدید فقہی مسائل

جواب:

دینِ اسلام، اخلاقیات اور ملکی آئین میں سود قطعی حرام اور ممنوع ہونے کے باوجود بدقسمتی سے ہم اس لعنت سے مکمل چھٹکارہ پانے میں کامیاب نہیں ہوئے، تاہم اکثر ملکی بینکوں میں نفع و نقصان شراکتی کھاتوں کی سہولت کے ساتھ (PLS) کا شعبہ قائم کیا گیا ہے۔ چند ایک بینک ممکنہ حد تک اسلامی اصول معیشت کے مطابق کام کر رہے ہیں۔ ہمارے علم، تحقیق اور تجربے کے مطابق پاکستان میں ابھی تک کوئی بینک مکمل اسلامی اصول و ضوابط پر عمل نہیں کر رہا۔

بحیثیت ایک ذمہ دار شہری کے کسی بینک یا ادارے میں سرمایہ کاری کرنے، رقوم جمع کروانے یا کھاتہ کھلوانے سے قبل اس کی مکمل تفصیلات جان لینا ہماری ترجیح ہونا چاہیے۔ تفصیلات سے مکمل آگاہی کے بعد ایسے شعبے کے ساتھ معاملات طے کیے جائیں جہاں اسلامی اصول معیشت کے مطابق نظام موجود ہو۔ اگر کوئی بینک دھوکہ دہی کرتے ہوئے تفصیلات کچھ اور بتائے اور معاملات اس سے مختلف کرے تو اس کا ذمہ دار اور گنہگار بینک ہے، ہم نہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ ممکنہ حد تک چھان بین کر کے اس شعبے میں رقوم جمع کروائیں یا کھاتہ بنوائیں جو اسلامی اصول و ضوابط کے مطابق معاملہ کرے۔ ایسی صورت میں ملنے والا منافع شرعاً جائز ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی