کیا اسلام بچوں‌ کے قتل کی اجازت دیتا ہے؟


سوال نمبر:3428
السلام علیکم مفتی صاحب! کچھ لوگ سانحہ پشاور میں‌ ہونے والی دہشت گردی کے جواز کے لیے ایک حدیث پیش کر رہے ہیں، جس میں‌ رسول اکرم ﷺ کے اس فرمان کا اشارہ دیا جارہا ہے، جو آپ نے قبیلہ بنو قریظہ کے قتال کے متعلق جاری کیا تھا؟ اس کی وضاحت فرما دیں۔

  • سائل: محمد فرحان صدیقیمقام: کراچی
  • تاریخ اشاعت: 30 دسمبر 2014ء

زمرہ: جہاد

جواب:

حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پورے زمانہ اقدس میں کسی ایک غزوہ میں مسلمانوں کے ہاتھوں ایک عورت قتل ہوئی تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دورانِ جنگ غیر مسلم عورتوں اور بچوں کو قتل کرنا سختی سے منع فرما دیا۔ حدیث مبارکہ ہے:

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اﷲ عنهما قَالَ: وُجِدَتِ امْرَاة مَقْتُولَة فِي بَعْضِ مَغَازِي رَسُولِ اﷲِ فَنهَی رَسُولُ اﷲِ عَنْ قَتْلِ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ.

حضرت عبد اﷲ ابن عمر رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی غزوہ میں ایک عورت کو دیکھا جسے قتل کردیا گیا تھا۔ اس پر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کی ممانعت فرمادی۔

  1. بخاري، الصحيح، 3: 1098، رقم: 2852، دار ابن کثير اليمامة بيروت
  2. مسلم، الصحيح، 3: 1364، رقم: 1744، دار احياء التراث العربي بيروت
  3.  احمد بن حنبل، المسند، 2: 22، رقم: 4739، مؤسسة قرطبة مصر
  4. ترمذي، السنن، 4: 136، رقم: 1569، دار احياء التراث العربي بيروت
  5. ابن ماجه، السنن، 2: 947، رقم: 2841، دار الفکر بيروت

بنی قریظہ ایک عہد شکن قبیلہ تھا جس نے غزوہ خندق میں مسلمانوں سے غداری کرنے کی کوشش لیکن اﷲ تعالی کے فضل سے ناکام ہو گئی۔ غزوہ خندق کے فوراً بعد ان کا محاصرہ کیا گیا تو وہ قلعہ بند ہو گئے۔ چونکہ ان کا محاصرہ نماز عصر کے بعد کیا گیا تھا اس لیے خدشہ تھا کہ رات کو لڑائی ہونے کی صورت میں عورتیں اور بچے بھی مارے جائیں گے۔ جیسا کہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ بنی قریظہ کا محاصرہ کیا اور ان کے جنگجو مردوں کو قتل کر دیا گیا جبکہ عورتوں اور بچوں کو قتل نہیں کیا گیا تھا۔

عَنْ عَائِشَة رضي اﷲ عنها قَالَتْ اُصِيبَ سَعْدٌ يَوْمَ الْخَنْدَقِ رَمَاه رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ يُقَالُ لَه حِبَّانُ بْنُ الْعَرِقَة وَهوَ حِبَّانُ بْنُ قَيْسٍ مِنْ بَنِي مَعِيصِ بْنِ عَامِرِ بْنِ لُؤَیٍّ رَمَاه فِي الْأَکْحَلِ فَضَرَبَ النَّبِيُّ خَيْمَة فِي الْمَسْجِدِ لِيَعُودَه مِنْ قَرِيبٍ فَلَمَّا رَجَعَ رَسُولُ اﷲِ مِنَ الْخَنْدَقِ وَضَعَ السِّلَاحَ وَاغْتَسَلَ فَأَتَاه جِبْرِيلُ وَهوَ يَنْفُضُ رَأْسَه مِنْ الْغُبَارِ فَقَالَ قَدْ وَضَعْتَ السِّلَاحَ وَاﷲِ مَا وَضَعْتُه اخْرُجْ إِلَيْهمْ قَالَ النَّبِيُّ فَاَيْنَ فَأَشَارَ إِلَی بَنِي قُرَيْظَة فَأَتَاهمْ رَسُولُ اﷲِ فَنَزَلُوا عَلَی حُکْمِه فَرَدَّ الْحُکْمَ إِلَی سَعْدٍ قَالَ فَإِنِّي أَحْکُمُ فِيهمْ أَنْ تُقْتَلَ الْمُقَاتِلَة وَأَنْ تُسْبَی النِّسَاءُ وَالذُّرِّيَة وَأَنْ تُقْسَمَ أَمْوَالُهمْ قَالَ هشَامٌ فَأَخْبَرَنِي أَبِي عَنْ عَائِشَة أَنَّ سَعْدًا قَالَ اَللَّهمَّ إِنَّکَ تَعْلَمُ أَنَّه لَيْسَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيَّ أَنْ اُجَاهدَهمْ فِيکَ مِنْ قَوْمٍ کَذَّبُوا رَسُولَکَ وَأَخْرَجُوه اَللَّهمَّ فَإِنِّي أَظُنُّ أَنَّکَ قَدْ وَضَعْتَ الْحَرْبَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهمْ فَإِنْ کَانَ بَقِيَ مِنْ حَرْبِ قُرَيْشٍ شَيْئٌ فَأَبْقِنِي لَه حَتَّی اُجَاهدَهمْ فِيکَ وَإِنْ کُنْتَ وَضَعْتَ الْحَرْبَ فَافْجُرْها وَاجْعَلْ مَوْتَتِي فِيها فَانْفَجَرَتْ مِنْ لَبَّتِه فَلَمْ يَرُعْهمْ وَفِي الْمَسْجِدِ خَيْمَة مِنْ بَنِي غِفَارٍ إِلَّا الدَّمُ يَسِيلُ إِلَيْهمْ فَقَالُوا يَا أَهلَ الْخَيْمَة مَا هذَا الَّذِي يَأْتِينَا مِنْ قِبَلِکُمْ فَإِذَا سَعْدٌ يَغْذُو جُرْحُه دَمًا فَمَاتَ مِنْها.

حضرت عائشہ صدیقہ رضي اﷲ عنھا فرماتی ہیں کہ جنگ خندق کے اندر حضرت سعد بن معاذ کو قریش کے ایک آدمی حبان بن عرقہ (جس کا نام حبان بن قیس تھا، یہ قبیلہ بنی عامر بن لویّ کی شاخ بنی معیص سے تعلق رکھتا تھا) کا تیر لگ گیا تھا جو ان کے بازو کی رگ میں لگا تھا۔ تو نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے لئے مسجد نبوی میں خیمہ نصب کروا دیا تاکہ قریب سے ان کی بیمار پرسی کرسکیں۔ جب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم جنگ خندق سے فارغ ہوکر واپس تشریف لائے تو ہتھیار اتار کر غسل فرمانے لگے۔ اس وقت حضرت جبرئیل حاضر خدمت ہوئے اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سر مبارک سے گرد جھاڑ رہے تھے۔ عرض گزار ہوئے کہ آپ نے تو ہتھیار اتار دیئے خدا کی قسم میں نے ابھی نہیں اتارے ان کی جانب تشریف لے چلیے۔ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کن کی جانب؟ انہوں نے بنی قریظہ کی جانب اشارہ کیا۔ پھر رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے۔ تو وہ آپ کے حکم پر قلعے میں اتر آئے پھر آپ نے یہ فیصلہ حضرت سعد کی طرف لوٹا دیا۔ انہوں (حضرت سعد) نے فرمایا کہ ان کا یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ ان کے جو مرد لڑنے کے قابل ہیں انہیں قتل کردیا جائے، ان کی عورتوں اور بچوں کو لونڈی غلام بنالیا جائے اور ان کے مال کو مسلمانوں پر تقسیم کردیا جائے۔ حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ حضرت سعد نے بارگاہِ خداوندی میں یوں دعا کی تھی۔ ’’اے اللہ! تو جانتا ہے کہ مجھے اس سے پیاری کوئی چیز نہیں کہ اس قوم سے جہاد کرتا رہوں جس نے تیرے رسول کو جھٹلایا اور انہیں وطن سے نکالا۔ میرے خیال میں تو نے ہمارے اور کفار قریش کے درمیان لڑائی ختم کردی ہے۔ اگر قریش سے لڑنا ابھی باقی ہے تو مجھے زندگی عطا فرما تاکہ میں تیری راہ میں ان کے ساتھ جہاد کروں اور اگر تو نے ان کے ساتھ ہماری لڑائی ختم فرمادی ہے تو میرے اسی زخم کو جاری کر کے شہادت کی موت عطا فرمادے‘‘۔ پھر خیمہ سے بنی غفار کی طرف بہنے والے خون نے ہی انہیں گھبراہٹ میں ڈالا تو انہوں نے کہا: خیمہ والو! تمہاری طرف سے، ہماری جانب کیا آ رہا ہے؟ تو دیکھا حضرت سعد کے زخم سے تیزی کے ساتھ خون بہہ رہا ہے، جس کے نتیجہ میں ان کی موت واقع ہو گئی۔

  1. بخاري، الصحيح، 4: 1511، رقم: 3896
  2. مسلم، الصحيح، 3: 1389، رقم: 1769
  3. أحمد بن حنبل، المسند، 6: 56، رقم: 24340

عَنْ أَبِي هرَيْرَة قَالَ بَيْنَا نَحْنُ فِي الْمَسْجِدِ خَرَجَ رَسُولُ اﷲِ فَقَالَ انْطَلِقُوا إِلَی يَهودَ فَخَرَجْنَا مَعَه حَتَّی جِئْنَا بَيْتَ الْمِدْرَاسِ فَقَامَ النَّبِيُّ فَنَادَاهمْ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ يَهودَ أَسْلِمُوا تَسْلَمُوا فَقَالُوا قَدْ بَلَّغْتَ يَا أَبَا الْقَاسِمِ قَالَ فَقَالَ لَهمْ رَسُولُ اﷲِ ذَلِکَ اُرِيدُ أَسْلِمُوا تَسْلَمُوا فَقَالُوا قَدْ بَلَّغْتَ يَا أَبَا الْقَاسِمِ فَقَالَ لَهمْ رَسُولُ اﷲ ذَلِکَ اُرِيدُ ثُمَّ قَالَها الثَّالِثَة فَقَالَ اعْلَمُوا أَنَّمَا الْأَرْضُ لِلّٰه وَرَسُولِه وَأَنِّي اُرِيدُ أَنْ اُجْلِيَکُمْ مِنْ هذِه الْأَرْضِ فَمَنْ وَجَدَ مِنْکُمْ بِمَالِه شَيْئًا فَلْيَبِعْه وَإِلَّا فَاعْلَمُوا أَنَّمَا الْأَرْضُ لِلّٰه وَرَسُولِه.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ہم مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ یہودیوں کی طرف چلو۔ تو ہم آپ کے ساتھ چل دیئے یہاں تک کہ ہم بیت المدراس جا پہنچے۔ چنانچہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھڑے ہو کر انہیں آواز دی: اے یہودیو! اسلام لے آئو، محفوظ ہو جائو گے۔ انہوں نے کہا اے ابو القاسم! آپ نے پیغام پہنچا دیا۔ راوی کا بیان ہے کہ پھر رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا: میری مراد یہی ہے کہ تم اسلام لے آئو، محفوظ ہو جائو گے۔ انہوں نے کہا کہ اے ابو القاسم! آپ نے پیغام پہنچا دیا۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر اُن سے تیسری مرتبہ فرمایا کہ میرا مقصد یہ ہے کہ تم اچھی طرح جان جاؤ کہ زمین اللہ اور اس کے رسول کی ہے، اور میں تمہیں اس زمین سے جلا وطن کرنا چاہتا ہوں۔ تو جس کو اپنے مال کی کوئی قیمت ملتی ہے تو فروخت کر لے ورنہ سن لو کہ زمین اللہ اور اس کے رسول کی ہے۔

  1. بخاري، الصحيح، 6: 2674، رقم: 6916
  2. مسلم، الصحيح، 3: 1387، رقم: 1765

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اﷲُ عَنْهمَا قَالَ حَارَبَتِ النَّضِيرُ وَقُرَيْظَة فَأَجْلَی بَنِي النَّضِيرِ وَأَقَرَّ قُرَيْظَة وَمَنَّ عَلَيْهمْ حَتَّی حَارَبَتْ قُرَيْظَة فَقَتَلَ رِجَالَهمْ وَقَسَّمَ نِسَائَ همْ وَأَوْلَادَهمْ وَأَمْوَالَهمْ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ إِلَّا بَعْضَهمْ لَحِقُوا بِالنَّبِيِّ فَآمَنَهمْ وَأَسْلَمُوا وَأَجْلَی يَهودَ الْمَدِينَة کُلَّهمْ بَنِي قَيْنُقَاعَ وَهمْ رَهطُ عَبْدِ اﷲِ بْنِ سَلَامٍ وَيَهودَ بَنِي حَارِثَة وَکُلَّ يَهودِ الْمَدِينَة.

حضرت ابن عمر رَضِيَ اﷲُ عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ بنی نضیر اور بنی قریظہ نے لڑائی کی تو بنی نضیر کو جلاوطن کردیا گیا اور بنی قریظہ پر احسان کرکے انہیں رہنے دیا گیا۔ جب انہوں نے دوبارہ لڑائی کی تو ان کے مردوں کو قتل کردیا اور ان کی عورتوں اور بچوں کو نیز مال اسباب کو مسلمانوں میں بانٹ دیا گیا۔ ماسوائے ان لوگوں کے جو نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مل گئے یعنی ایمان لاکر مسلمان ہوگئے۔ چنانچہ مدینہ منورہ کے سارے یہودی بنی قینقاع جو حضرت عبداللہ بن سلام کے ہم قوم تھے، بنی حارثہ کے یہود اور مدینہ طیبہ کے دوسرے تمام یہودی جلاوطن کردیئے گئے۔

  1. بخاري، الصحيح، 4: 1478، رقم: 3804
  2. مسلم، الصحيح، 3: 1387، رقم: 1766

عَنْ سَعْدٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا اُمَامَة قَالَ سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ ص يَقُولُ نَزَلَ أَهلُ قُرَيْظَة عَلَی حُکْمِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ فَأَرْسَلَ النَّبِيُّ إِلَی سَعْدٍ فَأَتَی عَلَی حِمَارٍ فَلَمَّا دَنَا مِنَ الْمَسْجِدِ قَالَ لِلْأَنْصَارِ قُومُوا إِلَی سَيِّدِکُمْ أَوْ خَيْرِکُمْ فَقَالَ هؤُلَائِ نَزَلُوا عَلَی حُکْمِکَ فَقَالَ تَقْتُلُ مُقَاتِلَتَهمْ وَتَسْبِي ذَرَارِيَهمْ قَالَ قَضَيْتَ بِحُکْمِ اﷲِ وَرُبَّمَا قَالَ بِحُکْمِ الْمَلِکِ.

حضرت ابوسعید خدری ص فرماتے ہیں کہ حضرت سعد بن معاذ کے حکم پر بنی قریظہ قلعہ کے نیچے اتر آئے تھے۔ تو نبی کریمصلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سعد ص کو بلا بھیجا۔ پس وہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہونے کے لئے گدھے پر سوار ہوکر چل پڑے اور جب مسجد نبوی کے قریب آگئے تو آپ نے انصار سے فرمایا کہ اپنے سردار یا اپنے بہترین فرد کے لئے تعظیمی قیام کرو۔ آپ نے فرمایا کہ یہ لوگ تمہارے حکم پر قلعہ سے اتر آئے ہیں اب ان کا فیصلہ کردو۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ ان کے جو افراد لڑنے کے قابل ہیں وہ قتل کردیئے جائیں اور ان کے اہل و عیال کو قیدی بنا لیا جائے۔ آپ نے فرمایا کہ تم نے حکم الٰہی کے مطابق فیصلہ کیا ہے اور کبھی آپ یہ فرماتے کہ حکم فرشتہ کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔

  1. بخاري، الصحيح، 4: 1511، رقم: 3895
  2. مسلم، الصحيح، 3: 1388، رقم: 1768

بالفرض ان غدار لوگوں کو (جو پوری ریاست مدینہ کے لئے خطرہ تھے) قتل کرتے ہوئے، رات کے اندھیرے میں لڑائی کے دوران عورتیں اور بچے ہلاک ہو جاتے یا انہی کی طرح کے خطرناک کوئی اور لوگ ہوتے یا پھر آج بھی کوئی ایسا گروہ ہو تو ان کے بارے میں درج ذیل حدیث مبارک ہے:

عَنْ الصَّعْبِ بْنِ جَثَّامَة قَالَ مَرَّ بِيَ النَّبِيُّ بِالْأَبْوَاءِ أَوْ بِوَدَّانَ وَسُئِلَ عَنْ أَهلِ الدَّارِ يُبَيَتُونَ مِنْ الْمُشْرِکِينَ فَيُصَابُ مِنْ نِسَائِهمْ وَذَرَارِيِّهمْ قَالَ: همْ مِنْهمْ وَسَمِعْتُه يَقُولُ لَا حِمَی إِلَّا ِﷲِ وَلِرَسُولِه.

حضرت صعب بن جثامہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ابواء یا ودّان کے مقام پر میرے پاس سے گزر ہوا تو آپ سے ان مشرکوں کے بچوں اور عورتوں کے بارے میں دریافت کیا گیا جو رات کو اپنے گھروں میں سوئے ہوتے ہیں اور (بوقتِ شب خون) قتل کردیئے جاتے ہیں۔ آپ نے فرمایا وہ بھی تو ان ہی میں سے ہیں۔ نیز آپ کو یہ بھی فرماتے سنا گیا کہ چراگاہیں صرف اللہ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملکیت ہیں۔

  1. بخاري، الصحيح، 3: 1097، رقم: 2850
  2. مسلم، الصحيح، 3: 1364، رقم: 1745

معلوم ہوا کہ ایسے لوگ جو عوام الناس کے جان و مال، عزت و آبرو اور ملکی سلامی کے لیے خطرہ ہوں انہیں کسی صورت چھوڑنا نہیں چاہیے۔ اگر وہ عورتوں اور بچوں کو ڈھال بنا کر چھپنے کی کوشش کریں تو بھی انہیں قتل کیا جائے۔ کیونکہ وہ پورے معاشرے کے استحکام کے لیے خطرہ ہیں اس لیے ان کا قلعہ قمہ کرنا ہر صورت لازم ہے۔ درج بالا حدیثِ مبارکہ درست مفہوم یہی ہے۔

اس حدیثِ مبارکہ کو سانحہ پشاور کے ساتھ جوڑنا اور دلائل پیش کر کے معصوم بچوں کے قتلِ ناحق کو جائز قرار دینا بالکل خارجی ذہن کی عکاسی ہے۔ اس سکول میں کون سے غدار چھپے ہوئے تھے؟ کیا وہ معصوم بغاوت کر رہے تھے؟ کیا وہاں جنگ ہو رہی تھی کہ عورتیں اور بچے زد میں آگئے؟ کیا بچوں نے کوئی فساد بپا کیا تھا؟ کیا وہ بچے مرتد ہوگئے تھے؟ کیا انہوں نے کوئی قتلِ ناحق کیا تھا؟ ان تمام سوالوں کا جواب نفی میں ہے تو اس قتلِ عام کے جواز کی دلیل کیسے بنا لی گئی؟

یہ ظلم خارجی دہشت گردوں نے معاشرے میں دہشت پھیلانے کے لیے کیا جس کا اسلام سے دور دور تک کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ خوارج کی یہ تاریخ رہی ہے کہ وہ ہر دور میں کفار کے بارے میں نازل ہونے والی آیات اور وارد ہونے والی احادیث کو اہلِ اسلام پر چسپاں کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے پیغمبرِ اسلام صلیٰ اللہ علیہ آلہ وسلم کی ذات پر طعنہ زنی کی، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو گالیاں بکیں، اہلِ بیتِ رسول علیھم السلام پر کفر کے فتوے لگائے اور اہلِ اسلام کا قتلِ عام کیا۔ دورِ حاضر کے خوارج بھی اسی ذہنیت کا تسلسل ہیں۔ ان کے فتنہ و فساد کا دینِ امن و رحمت سے کوئی تعلق اور واسطہ نہیں ہے۔ یہ اسلام اور پاکستان، دونوں کے لیے خطرہ ہیں۔ اہلِ عقل و دانش کا فریضہ ہے کہ عوام الناس کو ان کی اصلیت سے روشناس کروائیں اور انہیں دہشت گرد گروہوں کے ہاتھ لگنے سے بچائیں۔

مزید وضاحت کے لیے خود کش دھماکوں اور خوارج کے خلاف دیئے گئے شیخ الاسلام ڈاکٹرمحمدطاہرالقادری کے فتویٰ کا مطالعہ کیجیے:

دہشت گردی اور فتنہ خوارج

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری