کیا مورث کی زندگی میں وراثت تقسیم کی جاسکتی ہے؟


سوال نمبر:3418
اسلام علیکم! چار بیٹوں میں سے ایک اپنے باپ کے حیات ہوتے ہوئے انکی جائیداد یعنی کہ مکان میں سے، کیا اپنا حصہ مانگ سکتا ہے؟ اب حصہ اس کودے دیناچاہیے یا باپ کے فوت ہونے پر ہی وہ حصے کا مستحق ہوگا؟ اور اگرحیات میں دے دیا تو کیا وفات کے بعد بھی وہ حصہ دار ٹھرے گا؟ چاہے پہلے اشٹام بھی لیا ہواہے۔ مزید کیا بیٹی بھی باپ سے اپنا حصہ مانگ سکتی ہے؟ شرعی اور قانونی رہنمائی فرما دیجیے۔۔۔ جزاک اللہ خیر

  • سائل: شعیب علیمقام: اوکاڑہ
  • تاریخ اشاعت: 29 دسمبر 2014ء

زمرہ: تقسیمِ وراثت

جواب:

شرعی اصطلاح میں وراثت، میراث یا ترکہ اس جائیداد کو کہا جاتا ہے جو کوئی شخص وفات کے وقت چھوڑتا ہے، اور اس وقت موجود ورثاء میں تقسیم ہوتی ہے۔ سورۃ النساء کی آیت نمبر دس (10) میں جہاں اللہ تعالیٰ نے تقسیمِ وراثت کے اصول بیان کیے ہیں، وہاں وراثت کے لیے لفظ ’’مِمَّا تَرَكَ‘‘ استعمال کیا جس کا مطلب ہے ’’کسی مرد یا عورت کے انتقال کے وقت اس کی ملکیت میں جو مال و جائیداد، نقد روپیہ اور استعمال کا سازوسامان وغیرہ۔‘‘

اگر کوئی شخص اپنی جائیداد کا کچھ حصہ اپنی زندگی میں ہی اپنی اولاد کو بطور عطیہ یا ہبہ دینا چاہے تو دے سکتا ہے، تاہم اولاد باپ کو ہرگز تقسیم پر مجبور نہیں کر سکتی۔ شرعاً اور قانوناً باپ اپنے مال کا مالک ہے، اس کو تقسیم کرنا یا نہ کرنا اس کے اختیار میں ہے۔ اس عطیہ اور ہبہ میں ’’لڑکے کے لئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے‘‘ والا اصول پیش نظر نہیں رکھا جائے گا، کیونکہ یہ اصول موت کے بعد میراث یا ترکہ پر لاگو ہوتا ہے۔ زندگی میں اولاد کو عطیہ یا ہبہ کرتے وقت لڑکے اور لڑکی کو برابر بھی دیا جا سکتا ہے۔ والد كے لیے بہتر یہی ہے كہ وہ اپنى زندگى ميں اپنا مال تقسيم نہ كرے، ہو سكتا ہے وہ بعد میں اس كا محتاج اور ضرورتمند ہو جائے۔ والد کی وفات کے بعد اس کے ترکہ پر وراثت کے قوانین لاگو ہوں گے، اور جو ورثاء اس وقت زندہ یا موجود ہوں گے ان میں ترکہ تقسیم ہوگا۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری