کیا اجنبی کو خون عطیہ کرنا جائز ہے؟


سوال نمبر:3407
اپنے جسم کا خون کسی اجنبی کو عطیہ کرنا جائز ہوگا یا نہیں؟

  • سائل: محمد رضامقام: بنگلہ دیش
  • تاریخ اشاعت: 17 دسمبر 2014ء

زمرہ: جدید فقہی مسائل  |  علاج و معالجہ

جواب:

خون کسی اجنبی کو عطیہ کرنا جائز ہے۔ اس سلسلے میں چند امور کی وضاحت درج ذیل ہے:

سب سے پہلے اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ خون صرف اس شخص کو دیا جائے، جومرض یا زخمی ہونے کی وجہ سے موت وحیات کی کشمکش میں ہو، اور اسے خون کی ایسی ضرورت ہو کہ اگر خون نہ دیا جائے تو موت کا اندیشہ ہو۔

ایسے شخص کو خون دینے کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:

قَدْ فَصَّلَ لَكُم مَّا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ إِلاَّ مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَيْهِ

حالانکہ اللہ تعالی نے ان سب جانوروں کی تفصیل بیان کردی ہےجن کو تم پر حرام کیا ہے ، مگر وہ بھی جب تم کوسخت ضرورت پڑ جائے توحلال ہے

الانعام: 119

اس آیتِ مبارکہ سے پتہ چلا کہ بوقتِ ضرورت حرام غذا کا استعمال کرنا بھی جائز ہے۔ کسی ایسے مريض یا زخمی کو خون دینا جس کی شفایابی انتقالِ خون سے ہی ممکن ہو، حقیقت میں غذا دینے جیسا ہے۔ لہٰذا ایسی صورت میں خون عطیہ کرنا جائز ہے ۔

دوسری قابلِ غور بات یہ ہے کہ  جس سے خون منتقل کیا جا رہا ہے، یعنی جو شخص خون عطیہ کر رہا ہے، اس کو کوئی ظاہری ضرر اور نقصان تو نہيں ہو رہا۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:

عن ابن عباس قال رسول الله صلی الله علیه و سلم لا ضرر ولا ضرار فی الاسلام

احمد بن حنبل، المسند، رقم حدیث: 2921

سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ۔ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اسلام میں نہ نقصان (اٹھانا) درست ہے اور نہ نقصان پہنچانا جائز ہے ۔

خون عطیہ کرتے وقت اس بات کا خیال رکھنا بھی لازم ہے کہ انتقال خون کی تجویز کسی ماہر ڈاکٹر کی ہو۔ کسی عطائی یا نیم حکیم کی نہ ہو۔

اگر درج بالا امور کو دھیان میں رکھ کر خون عطیہ کیا جائے ، تو یہ نہ صرف جائز بلکہ باعثِ ثواب بھی ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی