کیا اسلام میں کسی کے ہاتھ پر بیعت کرنا واجب ہے؟


سوال نمبر:3101
السلام علیکم میرا سوال بیعت سے متعلق ہے، کیا اسلام میں کسی کے ہاتھ پر بیعت کرنا واجب ہے؟ اگر کوئی ولی اللہ میسر نہ آئے تو کیا کیا جائے؟ نیز کیا کسی جماعت میں شمولیت سے یہ ضرورت پوری ہو جاتی ہے؟ کیا ڈاکٹر صاحب بیعت کرتے ہیں؟ دعاؤں اور جواب کا طالب۔

  • سائل: عبدالرحیم شہزادمقام: الخبر، سعودی عرب
  • تاریخ اشاعت: 09 اپریل 2014ء

زمرہ: بیعت

جواب:

کسی کے ہاتھ پر بیعت کرنا واجب تو نہیں ہے لیکن بیعت کرنے سے مراد یہی ہوتا ہے کہ بندہ کسی کی پیروی کرے۔ یعنی جو شخص اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات کو ماننے والا ہو، عوام اس کی پیروی کرے۔ کیونکہ عامۃالنّاس اس قابل نہیں ہوتے کہ قرآن وحدیث اور علوم اسلامیہ میں مہارت رکھتے ہوں۔ اس لیے راہِ حق پر چلنے کے لئے انہیں کسی معتبر ہستی کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر کوئی شخص خود اس درجہ پر فائز ہو کہ تفہیمِ شریعت میں کسی کی ضرورت محسوس نہ کرے اور شریعت کے علمی اور عملی دونوں میدانوں میں ماہر ہو۔ ایسے بندے کے لیے تو ضروری نہیں کہ وہ کسی جماعت کے ساتھ جائے یا کسی کی بیعت کرے بلکہ وہ اس طبقہ میں شامل ہے جو مذکورہ امور میں عوام کی مدد کرتے ہیں، انہیں حقائق سے آگاہ کرتے ہوئےراہِ حق کی بات بتاتے ہیں۔

یاد رہے بیعت یا پیروی اس بندے یا جماعت کی کرنا چاہیے جو علمی اور عملی دونوں میدانوں میں درجہ کمال پر ہو اور صحیح العقیدہ ہو۔ اللہ تعالی، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، صحابہ کرام، اہل بیت اطہار اور سلف صالحین ہستیوں کا ادب واحترام کرے اور ان کی تعلیمات پر ہو۔ اصل مقصد یہ ہے کہ جو اللہ کا بندہ یا جماعت انسانیت کی بہتر تربیت بھی کرے اور تعلیم بھی دے اسی کے ساتھ جڑنا چاہیے، تاکہ مل جل کر تعلیماتِ اسلامیہ کو فروغ دیا جاسکےاور اسلام کے پرچمِ حق کو بلند کیا جائے۔ یہ ہر مسلمان کا اخلاقی وملی فریضہ ہے جو اسے ادا کرنا چاہیے۔

ڈاکٹر طاہر القادری صاحب بیعت نہیں کرتے ہیں لیکن اسلام کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے پیش کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ تمام اہل حق کو چاہیے ڈاکٹر صاحب کا ساتھ دیں تاکہ اسلام کی اصل روح لاگو ہو سکے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی