پڑوسیوں کو تربیت کی غرض سے کیسے سمجھایا جائے؟


سوال نمبر:3072
السلام علیکم ہم لوگ 1 سال پہلے یہاں شفٹ ہوئے تھے، ہمارے رشتے میں ایک کزن کی فیملی بھی قریب رہتی ہے، شروع میں تو ہم نے اُن کے بچوں کو بغیر فیس کے پڑھایا لیکن اب ہم لوگ اپنی بچی کی تربیت بھی اچھی کرنا چاہتے ہیں لیکن وقت نہیں ملتا تھا، ہم نے بچوں کے والدین سے درخواست کی کے آپ لوگ کسی اور سے پڑھا لیں مگر وہ لوگ چونکے امارات میں مفت مل گیا اب وہ مانتے ہی نہیں۔ ہر طرح سے سمجھا دیا مگر بے سود۔ ادھر مکان فلیٹ تبدیل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ برائے مہربانی کوئی حل بتا دہیں۔ اگر میں ڈائریکٹ بول دوں تو میری نیکی یا میرے صلہ رحمی یا مجھ سے اللہ تعالی ناراض تو نہیں ہوں گے۔ ان کے بچوں کی بہت ساری غلط عادات بھی میری بچی نکل اتارتی ہے۔

  • سائل: اے بیمقام: یو اے ای
  • تاریخ اشاعت: 22 فروری 2014ء

زمرہ: حقوق العباد  |  پڑوسیوں کے حقوق

جواب:

اگر آپ لوگوں کے پاس وقت ہے پھر تو بہتر یہی ہے کہ انکی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی کر دیں تاکہ ان کی غلط عادات ختم ہو جائیں، ان کی بھی زندگی سنور جائے اور آپ لوگوں کی آخرت بہتر ہو جائے کیونکہ نیکی کا کام جتنا ہو سکے کرنا چاہیے۔ ہر کوئی اپنے لیے تو کر ہی لیتا ہے لیکن دوسروں کے لیے کرنا کچھ مشکل ہوتا ہے جبکہ اصل اجر اسی کا ہوتا ہے جس میں کوئی مفاد نہ ہو۔ اگر وہ فیس دے کر نہیں پڑھا سکتے یا ڈر ہے کہ ان کو فیس دینی پڑی تو بچوں کو پڑھنے سے محروم رکھیں گے تو پھر آپ ان پر نیکی کرتے ہوئے ان کی تعلیم وتربیت کر دیں۔ کسی کو انسانیت سیکھانا بہت ہی اچھا عمل ہے۔

اگر آپ کے پاس وقت نہیں ہے تو پھر آپ ان کو جواب دے دیں تاکہ وہ کوئی اور بندوبست کر لیں کیونکہ یہ تو ذمہ داری ان کے والدین کی ہے۔ ان کا فرض بنتا ہے کہ اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت اچھی کریں، یہ آپ کی ذمہ داری نہیں ہے۔ ایسا بھی نہیں کرنا کہ آپ ان کو اس انداز میں جواب دیں کہ آئندہ کے لیے تعلقات ہی ختم کر لیں۔ ان کو اپنی مجبوری بتائیں تاکہ صلہ رحمی کی نوبت ہی نہ آئے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی