کیا خاوند کی موجودگی میں بھائی یا والدین لڑکی کو کوئی حکم دے سکتے ہیں؟


سوال نمبر:2951
السلام علیکم میرا سوال یہ ہے کہ اسلام میں عورت کا پردہ کرنا تو ہے ہی مگر جیسا کہ آج کل پورے پاکستان کے حالات ایسے ہیں‌ کے خواتین کو پردہ ضرور کرنا چاہیے اور اندرون سندھ میں جیسے وڈیرا گری ہے یا تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے جہالت ہے اور آج کل راہ چلتی خوبصورت لڑکی بنا پردہ کے ہو تو اس کی عزت کا جنازہ نکالنے کے 95 فیصد امکان ہوتا ہے۔ میری بہن شادی شدہ ہے اور بہت خوبصورت بھی ہے وہ کبھی حجاب پہنتی ہے کبھی نہیں وہ کہتی ہے کہ مجھے سانس کا مسئلہ ہے اور وہ خود مانتی بھی ہے کہ مجھے حجاب اوڑھنا چاہیے اس میں خود کو محفوظ سمجھتی ہوں اس کے خاوند نے اور ہم نے اسے اتنی اجازت دی ہے کہ جب سانس لینے میں دشواری ہو تو تب اپنے منہ سے نقاب ہٹا دو اور کھل کے سانس لے لیا کرو لیکن نقاب ہمیشہ پہنو۔ اس کے خاوند نے کافی کہا پر میری بہن نہ مانی اور اب اس کے خاوند نے چپ سادھ لی ہے لیکن میں اس کا بھائی ہونے کی وجہ سے یہ برداشت نہیں کر پاتا کہ وہ ہمارے ساتھ کہیں آئے جائے تو بے پردہ ہو اور اس جہالت بھرے وحشیانہ ماحول میں اسے یہاں‌ کے لوگ دیکھیں یا ہم مردوں کی غیرت پر باتیں ہوں اور ہماری گردن نیچی ہو وہ بھی اس بات پر کے پرد ہ نہیں کرتی، تو میری بہن مجھے کہتی ہے کہ میری شادی ہو چکی ہے اب تم بھائیوں کا کوئی حق نہیں‌ نہ ہی میرے ماں باپ کا کے مجھے پردہ کرنے کا کہیں آپ لوگ، میرا خاوند بھی اب مجھے نہیں‌ کہتا تو آپ کون ہوتے ہیں؟ اس لیے مجھے یہ بتائیں کہ کیا شریعت میں کہیں بھی کوئی گنجائش نہیں کہ اگر لڑکی کا شوہر بول بول کر ہار مان چکا ہو اور اپنی بیوی کے آگے گھٹنے ٹیک چکا ہو اس بات پر کہ ٹھیک ہے پردہ نہ کرو، تو پھر اس کے بھائی یا ابو نہیں کہہ سکتے اسے پردہ کرنے کا۔

  • سائل: کاشف احمدمقام: دادو، سندھ
  • تاریخ اشاعت: 29 نومبر 2013ء

زمرہ: والدین کے حقوق

جواب:

عورتوں پر جو شرعی پردہ واجب ہے اس کے علاوہ اضافی نقاب وغیرہ کرنا ضروری نہیں ہے۔ اس پر کوئی گناہ نہیں ہےاگر وہ نقاب وغیرہ نہ کرے۔ اگر مجبوری ہے کہ نقاب کے بغیربچت کا کوئی راستہ نہیں پھر بہتر ہے وہ نقاب کرے۔ سانس کا مسئلہ ہے تو سیاہ رنگ کا باریک نقاب کر لے۔

باقی باپ، بھائیوں اور خاوند کا فرض بنتا ہے اس کو سمجھا دیں۔ حالات کے بارے میں بتا دیں۔ باقی عمل کرنا اس کا کام ہے اگر وہ عمل نہیں کرتی خود بھگتے گی۔ ویسے بھی اکیلی کو باہر جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر وہ کہیں جاب وغیرہ کرتی ہے تو اس کو اکیلی نہیں جانا چاہیے، ساتھ کوئی ضرور جائے، چھوڑ بھی آئے اور لے بھی آئے۔ جاب وغیرہ نہیں کرتی تو جب بھی کسی کام کےلیے جائے خاوند، بھائی یا باپ میں سے کسی کو ساتھ لے کر جائے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی