اسلامی مہینوں کا حرمت والا ہونے کی کیا حکمت ہے؟


سوال نمبر:2924
السلام علیکم میرا سوال یہ ہے کہ اسلام میں خاص چار مہینے (محرم، رجب، ذی القعدہ، ذو الحجۃ) حرمت کے ہیں اس میں لڑائی جنگ اور خون ریزی اللہ تعالی کی طرف سے ممنوع ہیں لیکن سر سوال یہ ہے کہ ان کے پیچھے کیا حکمت عملی ہے جس کے لیے اللہ اور پاک نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرمایا کہ ان دنوں میں لڑائی، جنگ اور خون ریزی منع ہے

  • سائل: جواد علیمقام: نا معلوم
  • تاریخ اشاعت: 16 نومبر 2013ء

زمرہ: متفرق مسائل

جواب:

قرآن مجید میں ہے :

إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَات وَالأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ فَلاَ تَظْلِمُواْ فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ وَقَاتِلُواْ الْمُشْرِكِينَ كَآفَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَآفَّةً وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ.

بیشک اللہ کے نزدیک مہینوں کی گنتی اللہ کی کتاب (یعنی نوشتہ قدرت) میں بارہ مہینے (لکھی) ہے جس دن سے اس نے آسمانوں اور زمین (کے نظام) کو پیدا فرمایا تھا ان میں سے چار مہینے (رجب، ذو القعدہ، ذو الحجہ اور محرم) حرمت والے ہیں۔ یہی سیدھا دین ہے سو تم ان مہینوں میں (ازخود جنگ و قتال میں ملوث ہو کر) اپنی جانوں پر ظلم نہ کرنا اور تم (بھی) تمام مشرکین سے اسی طرح (جوابی) جنگ کیا کرو جس طرح وہ سب کے سب (اکٹھے ہو کر) تم سے جنگ کرتے ہیں، اور جان لو کہ بیشک اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔

التوبہ، 9 : 36

ایک دوسری آیت مبارکہ میں ہے:

الشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ فَمَنِ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُواْ عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى عَلَيْكُمْ وَاتَّقُواْ اللّهَ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ.

حرمت والے مہینے کے بدلے حرمت والا مہینہ ہے اور (دیگر) حرمت والی چیزیں ایک دوسرے کا بدل ہیں، پس اگر تم پر کوئی زیادتی کرے تم بھی اس پر زیادتی کرو مگر اسی قدر جتنی اس نے تم پر کی، اور اﷲ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ اﷲ ڈرنے والوں کے ساتھ ہے۔

البقرۃ، 2 : 194

پہلی آیت مبارکہ میں مذکورہ چار مہینوں کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالی نے جب زمین وآسمان پیدا کیے ہیں اسی وقت سے یہ عزت والے ہیں۔ اسلام سے پہلے بھی یہ مہینے حرمت والے تھے اور اب بھی۔ کفار ومشرکین بھی ان کا احترام کرتے تھے۔ لیکن اگر دشمن حملہ کر دے تو پھر اس کا جواب دیا جائے گا یعنی اپنا دفاع کیا جائے گا۔ جیسا کہ دوسری آیت مبارکہ میں بتایا گیا ہے۔ اب آپ کے سوال کی طرف آتے ہیں کہ اس میں حکمت عملی کیا ہے؟

حکمت عملی یہ ہے کہ جو اللہ تعالی کو ماننے والے غلط فہمی کی وجہ سے آپس میں لڑ رہے ہوں گے وہ جب لڑائی بند کریں گے ان کو سوچنے، بات چیت کرنے اور معاملہ کو سمجھنے کا موقع مل جائے گا۔ ہو سکتا ہے وقفے کے دوران مذاکرات ہو جائیں اور امن وامان قائم ہو جائے، قتل وغارت سے بچت ہو جائے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی