نکاح کے گواہان کی شرعی حیثیت کیا ہے؟


سوال نمبر:2761
السلام علیکم میرا سوال یہ ہے کہ نکاح یا دیگر معاملات میں دو یا تین گواہان کا دینی، شرعی اور تاریخی فلسفہ کیا ہے؟ اور اگر گواہی کا مقصد ایک فرد یا دو افراد سے پورا ہو جائے تو کیا یہ جائز ہے؟ مثلا نکاح کے وقت عورت کی طرف سے وکیل ان کا والد ہے لڑکی خود بھی موجود ہے۔ تو کیا یقین ہونے کی صورت میں بھی والد پر گواہ لازمی ہے؟ والسلام مع الاحترام

  • سائل: حافظ نور الھادی حلیممقام: سری نام افریقہ
  • تاریخ اشاعت: 09 ستمبر 2013ء

زمرہ: شہادت (گواہی)  |  نکاح

جواب:

گواہوں کا فلسفہ یہ ہے کہ ایک لڑکی جس کو آج تک کسی نے آپ کے ساتھ نہیں دیکھا جو شادی کے بعد آپ کے ساتھ جا رہی ہو، کسی کو معلوم نہیں ہے کہ یہ اس کے ساتھ کیوں پھر رہی ہے؟ یا کہیں بھی آپ لوگ پکڑے جائیں تو ثبوت کس طرح ملے گا کہ آپ میاں بیوی ہیں یا آپ کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ اس صورتحال میں آپ نکاح نامہ دیکھائیں گے تو وہ بھی اسی وقت مانا جائے گا جب اس پر گواہوں کی تصدیق ہو گی۔

کیونکہ گواہوں کی شرط نہ رکھی جاتی تو ہر زنا کرنے والا جوڑا بھی بعد میں کہہ دیتا ہم نے تو نکاح کر رکھا ہے۔ اگر گواہوں کی شرط نہ ہو تو کتنے ہی لوگ آپس میں نکاح کر کے عورتوں کو استعمال کر کے چھوڑ دیتے اور بعد میں نکاح کا ہی انکار کر دیتے یا عورتیں بھی مردوں کے ساتھ ایسا کر سکتی تھیں۔ دیگر معاملات میں بھی جہاں جہاں گواہوں کی شرط لگائی گئی ہے وہ کوئی بے معنی نہیں ہے، کیونکہ گواہی سے مشروط کرنے کی وجہ سے معاشرہ بہت سے فسادات سے بچ سکتا ہے، اگر گواہ اسلام کی شرائط کے مطابق ہوں۔ ویسے تو آج کل جھوٹے گواہوں کے ذریعے بھی ہر کالے کرتوتوں والے کو پاک صاف ثابت کر دیا جاتا ہے اور کئی بے گناہوں کو قصور وار ٹھہرا دیا جاتا ہے۔

نکاح کے وقت لڑکے لڑکی کے علاوہ دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں بطور گواہ موجود ہونا شرط ہیں، ورنہ نکاح نہیں ہوتا۔ گواہ عاقل بالغ مسلمان ہوں اور انہیں معلوم ہو کہ یہ تقریب کس مقصد کے لیے منعقد کی جا رہی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ کہیں دو مرد اپنے دھیان سے اکٹھے باتیں کر رہے ہوں پاس لڑکا لرکی بیٹھ کر ایجاب وقبول کر لیں، لہذا لڑکے لڑکی کے علاوہ گواہ ہونا ضروری ہیں، اگر گواہ موجود تھے تو نکاح درست ہے، ورنہ دوبارہ پڑھ لیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی