اسلام میں منگنی کا کیا تصور ہے؟


سوال نمبر:2674
السلام علیکم اسلام میں منگنی کا تصور بتائیں۔ نیز رہنمائی فرمائیں کہ منگنی اور شادی رسومات کس حد تک ضروری ہے؟ اس مہنگائی کے دور بعض لوگ تمام تر اخراجات برداشت نہیں کر سکتے ان کے لئے آسان حل بتائیں۔ جزاک اللہ

  • سائل: ذیشان علیمقام: گجرات
  • تاریخ اشاعت: 24 اگست 2013ء

زمرہ: پیغامِ نکاح

جواب:

لفظ منگنی ہندی زبان کا اسم مؤنث ہے۔ جس کے کئی معانی ہیں۔ لیکن سوال سے متعلقہ یہ ہے کہ شادی کی نسبت ایک رسم جس میں لڑکی لڑکے کو شادی کے لیے منسوب کر دیتے ہیں۔ عربی میں اس کو خِطبَۃ کہتے ہیں۔

ہم روزمرہ زندگی میں دیکھتے ہیں کہ جب دو ملکوں، گروپوں، کمپنیوں، محکموں کے درمیان کوئی معاہدہ ہوتا ہے یا ہم لوگ کوئی گائے، بکری، بھینس، دکان، مکان، پلاٹ وغیرہ کا سودا کرتے ہیں تو پہلے دو چار ملاقتیں کرتے ہیں تاکہ اچھی طرح بات چیت ہو جائے اور تمام معلومات مل جائیں پھر جا کر بات پایہ تکمیل کو پہنچتی ہے۔ پہلے اچھی طرح چھان پھٹک کر لینے سے فریقین کو سوچ سمجھ کے لیے وقت بھی مل جاتا ہے۔ کوئی خرابی ہو تو اس کے بارے میں بھی معلوم ہو جاتا ہے۔

بنیادی طور پر رسم منگنی کا بھی سب سے بڑا فائدہ یہی ہے کہ نکاح سے پہلے کچھ وقت مل جاتا ہے۔ تاکہ دونوں خاندانوں میں کم از کم دو چار ملاقاتیں ہو جائیں اور کسی بھی قسم کی خرابی پائی جاتی ہو تو معلوم کرنے میں آسانی ہو جاتی ہے۔ فریقین میں ہم آہنگی پیدا ہو جاتی ہے کیونکہ جلد بازی میں طے کیے ہوئے ایسے رشتے خطرے سے خالی نہیں ہوتے۔ نکاح کے بعد حالات بگڑ جائیں تو بہت زیادہ مسائل کھڑے ہو جاتے ہیں۔

لہذا رسم منگنی بنیادی طور پر اچھی رسم ہے اور نکاح سے پہلے لڑکے لڑکی اور ان کے گھر والوں کو موقع فراہم کرتی ہے کہ ایک دوسرے کو اچھی طرح دیکھ لیں، سمجھ لیں تاکہ کوئی غلط فیصلہ ہونے سے بچا جا سکے۔ لیکن اگر اس رسم کو بھی ہم بعض رسوم کی طرح وبال زندگی بنا لیں اس میں ہمارا قصور ہے۔ مثلا قرض لے کر اس موقع پر تحفے تحائف کا لین دین کرنا، فضول خرچی کرنا، شراب وکباب کی محفلیں سجانا وغیرہ۔

المختصر منگنی کا اصل مقصد غلط فیصلے سے بچنا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ شادی کی رسومات جیسے دولہا کو سہرا باندھنا، کلائیوں پر گانہ باندھنا، کاندھے پر اجرک ڈالنا، لاچہ پہننا، شیروانی پہننا، دلہن کو لال دوپٹہ اوڑھنا، کلائیوں پر یا بازو پر ایک تو تعویذ باندھا جاتا ہے۔ یہ تو اللہ کا کلام ہے جو برکت وحفاظت کے لیے باندھا جاتا ہے۔ جائز ہے۔ باقی سہرا، گانہ، اجرک، لاچہ، شیروانی، لال دوپٹہ اور سر پر کلاہ وغیرہ سب اس موقع پر خوشی کے اظہار میں اپنا اپنا علاقائی رواج ہے۔ تھوڑے تھوڑے فرق سے ہر علاقہ میں پایا جاتا ہے۔ کرنے میں حرج نہیں، کرنا ضروری بھی نہیں۔ ہم نے کئی شادیوں کے موقع پر دیکھا ہے دولہے نے سہرا وغیرہ نہیں ڈالا ہوتا۔ کئی لوگ رسموں سے الگ رہتے ہیں یہاں تک کے بارات میں دولہا کی پہچان تک نہیں ہوتی نہ کوئی امتیاز۔ تاہم جو لوگ اسے پسند کرتے ہیں کریں۔ جو پسند نہیں کرتے نہ کریں۔ یہ چیزیں نہ تو ناجائز وحرام ہیں، نہ سنت وواجب یا فرض۔ کوئی کرتا ہے تو کرے نہیں کرتا تو نہ کرے۔ نہ کرنے والوں کو الزام دیں اور نہ ہی ان چیزوں کو ناپسند کرنے والوں کو۔ یہ دینی مسائل نہیں صرف رسم ورواج کی باتیں ہیں اور لوگوں کی پسند وناپسند پر منحصر ہیں اور بس ہمارے بعض لوگ ان جیسے مسائل میں ہی الجھ کر اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کرتے ہیں، یہ روش ترک کر دینی چاہیے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی