کیا شریعت میں جہیز دینا ضروری ہے؟


سوال نمبر:2653
السلام علیکم میرا سوال یہ ہے کہ شادی میں‌ لڑکی والے لڑکے کو جہیز کا سامان کیوں‌ دیتے ہیں؟ آج کل کے دور میں یہ بہت مشکل ہے پر لوگ پھر بھی دیتے ہیں۔ کیا یہ ضروری ہے اور اگر ہے تو کیوں؟ اگر ہم لڑکی والوں کو کہیں‌ کہ نہیں لینا پھر بھی وہ دیں تو کیا لینا چاہیے؟ لڑکی کے والدین کو تنگ کرنا اسلام میں کیوں ہے؟

  • سائل: عتیق الرحمانمقام: لاہور، پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 24 اگست 2013ء

زمرہ: نکاح

جواب:

جہیز لڑکی والوں کی طرف سے لڑکی کے لیے گفٹ ہوتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ لڑکی کے والدین اگر طاقت رکھتے ہوں تو اپنی مرضی سے جو کچھ آسانی کے ساتھ لڑکی کو دے سکتے ہوں دے دیں۔ لیکن آج کل یہ ایک لعنت بن گیا ہے۔ کئی کئی سال لڑکیوں کو اسی وجہ سے گھر بیٹھائے رکھتے ہیں کہ والدین کے پاس جہیز کے لیے پیسے نہیں ہوتے۔ جبکہ اسلام میں اس کی اجازت نہیں ہے کہ جوان لڑکی کو صرف اس لیے گھر بٹھائے رکھیں کہ ابھی جہیز کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ اسلام نے تو اس طرح کی کوئی شرط نہیں لگائی یہ تو ہماری اپنی غلطی ہے کہ ہم نے اپنے آپ کو خود ایسی ایسی بیہودہ رسومات میں جکڑ کہ رکھا ہے کہ ایک شادی کرنے کے بعد کئی کئی سال تک اس کا قرض ادا کرنے میں لگے رہتے ہیں۔

اسلام میں لڑکے کے لیے حق مہر دینا لازمی ہے اور بعد میں بیوی کو نان ونفقہ دینا لڑکے کا فرض ہے۔ لڑکی والوں کو کچھ بھی دینا ضروری نہیں ہے سوائے لڑکی کے۔ باقی اخراجات لڑکے کے ذمہ ہوتے ہیں۔ لیکن آج کل تو فیشن بن گیا ہے لڑکے والوں کی ہوس کی بھی انتہا ہو گئی ہے کہ شادی سے پہلے لڑکی والوں سے سپیشل ڈیمانڈ کرتے ہیں کہ جہیز میں فلاں فلاں چیزیں دینا ضروری ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی رسومات ہیں جن کی وجہ سے آج نکاح سے زنا سستا ہو چکا ہے۔ جوان لڑکے لڑکیاں پیسے نہ ہونے کی وجہ سے گناہوں میں مبتلا ہو رہے ہیں لیکن ان کے والدین صرف دکھاوے اور نمائش کی خاطر ان کی شادیاں نہیں کر رہے کہ شادی دھوم دھام سے کریں گے چاہے ان کی عمریں شادی کے قابل رہیں یا نہ رہیں۔ہم اللہ تعالی کے بتائے ہوئے احکام پر عمل کرنے کے بجائے معاشرتی رسومات میں اس حد تک گم ہو چکے ہیں کہ ایک شادی پر ہی اتنے اتنے پیسے خرچ کر دیتے ہیں جس سے غریبوں کی پچاس پچاس بیٹیوں کی شادیاں ہو سکتی ہیں۔ یہ سب دینی تعلیمات کی دوری کی وجہ سے ہے کہ ہم اصل مقصد حاصل کرنے کے بجائے معاشرتی رسومات کی خاطر ذلیل و رسوا ہو رہے ہیں اور نوجوان نسل کو گناہوں پر مجبور کر رہے ہیں۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ لڑکی کے والدین اگر طاقت رکھتے ہوں تو اپنی مرضی سے اپنی بیٹی کو جتنا چاہیں گفٹ کے طور پر جہیز دے سکتے ہیں۔ اگر طاقت نہیں رکھتے تو چاہے کچھ بھی نہ دیں ان پر کوئی اعتراض نہیں ہے کیونکہ لڑکی کے سوا ان پر کچھ بھی دینا ضروری نہیں ہے۔ اسلام تو کسی کو تنگ نہیں کرتا، تنگ تو ہم خود ہوتے ہیں، پھر تنقید اسلام پر کرتے ہیں۔ اسلام تو کہتا ہے کہ عاقل بالغ لڑکا لڑکی ایک دوسرے کو پسند کرتے ہوں تو باہمی رضامندی سے دو گواہوں کی موجودگی میں لڑکا لڑکی کو حق مہر دے اور ایجاب وقبول کر لیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی