طلاق کے صریح اور کنایہ الفاظ میں‌ فرق بتائیں؟


سوال نمبر:2645

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

محترم میری عرض یہ ہے کہ ان سوالات کے جوابات عنایت فرما دیں

سوال : کیا علامہ حصکفی رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ ابن عابدین المعروف شامی علیہ الرحمہ اور دیگر فقہاء کرام کی صریح طلاق کی تعریفات مثلاً

’’(صریحہ ما لم یستعمل الا فیہ) ولو بالفارسیۃ‘‘۔ [درمختارمع تنویر الابصار، باب الصریح، ج : 4، ص : 457، مطبوعہ، مکتبہ امدادیہ ملتان]۔

رد المحتار میں ہے : ’’الصریح ما غلب فی العرف استعمالہ فی الطلاق بحیث لا یستعمل عرفا الا فیہ من ای لغۃ کانت۔الی آخرہ‘‘۔[رد المحتار، باب الصریح، ج : 4، ص : 464، مکتبہ امدادیہ ملتان] ۔

سوال : 1۔ آج کے دور میں پاکستان و ہندوستان میں بولی جانے والی زبانوں کے الفاظ کو شامل ہو گی مثلاً کوئی مرد لفظ ’’طلاق‘‘ جو کہ عربی لغت کا ہے استعمال نہیں کرتا مثلاً لفظ ’’آزاد‘‘ کو مختلف جملوں میں استعمال کرتے ہوئے کہے’’تم میری طرف سے آزاد ہو، میں نے تمہیں آزاد کر دیا‘‘ وغیرہ اور شوہر مذکورہ جملوں کا کوئی خاص محمل بیان نہیں کرتا جس سے معلوم ہو کہ اس نے یہ جملہ طلاق کے لئے نہیں بولا تو کیا یہ جملہ مذکورہ تعریفات کے مطابق فی زمانہ صریح طلاق کے الفاظ میں شمار ہو گا یا نہیں؟۔ اور اسی طرح لفظ ’’فارغ ‘‘ اور لفظ’’ چھوڑا‘‘ ہے۔ یہ بھی فی زمانہ صریح الفاظ طلاق میں شمار ہوں گے یا نہیں؟

سوال نمبر : 2۔ ایسے الفاظ جو متقدمین کے دور میں کنایہ طلاق میں شمار کیے جاتے تھے اب اگر ان الفاظ سے ہر عامی شخص بیوی کو طلاق دینا ہی سمجھے تو کیا اس سے طلاق بائن واقع ہو گی یا رجعی؟ اور اس کے لئے نیت کی ضرورت ہوگی؟ مثلاً شوہر کے الفاظ بیوی کے لئے ’’میں تجھے رہا کرتا ہوں، میں تجھے آزاد کرتا ہوں‘‘ وغیرہ آپ سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ فقہ حنفی کی روشنی میں مفصّل اور مدلل جواب ارشاد فرمائیں اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین

  • سائل: غلام مرتضی مظہریمقام: کراچی
  • تاریخ اشاعت: 24 اگست 2013ء

زمرہ: طلاق بائن  |  طلاق صریح

جواب:

آپ کے پہلے سوال کا جواب ہے کہ یہ الفاظ کنایات میں سے ہیں۔ کئی معنوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ نیت یا قرینہ سے طلاق بائن مراد ہو گی۔ ورنہ دوسرے معانی میں سے جو مناسب ہو گا وہ مراد ہو گا۔ دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ جی ہاں جب تک صراحتہ لفظ طلاق نہ بولے پہلے کی طرح اب بھی کنایات میں شمار ہوں، ان کا حکم وہی ہے، جو اوپر بیان ہوا۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی