دعائے قنوت کا فلسفہ کیا ہے؟


سوال نمبر:2619
سلام مسنون۔ کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین دعائے قنوت کا فلسفہ کیا ہے؟ یہ مکمل طور پر کہاں درج ہے؟ کیا دعائے قنوت دور صحابہ، تابعین ، تبع تابعین کے دور سے رائج ہے؟ وتر نماز اس کا معمول کب سے ہے؟ اس سے متعلق لوگ مختلف باتیں کرتے ہیں لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔

  • سائل: پیر سید غلام احمد شاہ گیلانیمقام: میرپور، آزاد کشمیر
  • تاریخ اشاعت: 04 جولائی 2013ء

زمرہ: نماز وتر

جواب:

نماز وتر کی تیسری رکعت میں دعائے قنوت پڑھنا سنت ہے۔

1. عن سويد بن غفلة قال سمعت أبا بکر وعمر وعثمان وعلی يقولون قنت رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم فی آخر الوتر وکانوا يفعلون ذلک.

'سوید بن غفلہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوبکر صدیق، عمر فاروق، عثمان غنی اور علی المرتضی رضی اللہ عنہم کو فرماتے ہوئے سنا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وتر کی آخری رکعت میں دعا قنوت پڑھتے تھے اور تمام صحابہ بھی یہ ہی کرتے تھے۔

دار قطنی، السنن، 2 : 32، باب : ما یقراء فی رکعات الوتر والقنوت فیہ، رقم : 6، دار المعرفۃ بیروت

2۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وتروں کے آخر میں یہ پڑھتے :

اللهم انی أعوذ برضاک من سخطک وأعوذ بمعافاتک من عقوبتک وأعوذبک منک لا احصی ثناء عليک انت کما اثنيت نفسک.

ابن ماجہ، السنن، 1 : 373، باب ما جاء فی القنوت فی الوتر، رقم : 1179، دار الفکر بیروت

دعائے قنوت مختلف روایات سے مختلف الفاظ کے ساتھ کتب احادیث میں بیان کی گئی ہے فقہائے کرام نے بھی اس کو نقل کیا ہے۔ بہرحال جو بھی دعائے قنوت احادیث سے ثابت ہو ہم وتر کی آخری رکعت میں پڑھ سکتے ہیں۔ مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ دعائے قنوت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے۔ یعنی آقا علیہ الصلاۃ والسلام کے دور مبارک سے رائج ہے۔ نماز وتر واجب ہے۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول ہے۔

مزید مطالعہ کے لیے یہاں کلک کریں
نمازِ وتر کی کتنی رکعات ہوتی ہیں اور اس کے پڑھنے کا کیا طریقہ ہے؟

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی