کیا مسجد میں‌ عام آدمی کا صدقہ و زکوۃ مانگنا جائز ہے؟


سوال نمبر:2613
السلام علیکم میرا سوال یہ ہے کہ اکثر مسجد میں لوگ چندہ کی اپیل کرتے ہیں (صدقہ، خیرات و زکوۃ مانگنا) اور امام مسجد یا مسجد کمیٹی ان کو مسجد میں چندہ مانگنے سے منع کرتے ہیں کے مسجد میں مانگنا گناہ ہے اور خود ہی امام مسجد یا مسجد کمیٹی مسجد میں چندہ لیئے ہیں یا چندہ کی اپیل کرتے ہیں۔ برائے مہربانی مکمل تفصیل کے ساتھ احدیث مبارکہ کی روشنی میں جواب دیا جائے(آپ کی دعا کا طلب گار)۔

  • سائل: طلعت محمود قریشیمقام: راولپنڈی، پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 04 جولائی 2013ء

زمرہ: مسجد کے احکام و آداب  |  زکوۃ

جواب:

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثر غریبوں، مسکینوں، جہاد اور دیگر امور کے لیے چندہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہی جمع فرمایا کرتے تھے۔ وہیں یہ اعلان فرماتے تھے۔ جیسا کہ حدیث پاک میں ہے :

عَنِ الْمُنْذِرِ بْنِ جَرِيرٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ کُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي صَدْرِ النَّهَارِ قَالَ فَجَائَهُ قَوْمٌ حُفَاةٌ عُرَاةٌ مُجْتَابِي النِّمَارِ أَوْ الْعَبَاءِ مُتَقَلِّدِي السُّيُوفِ عَامَّتُهُمْ مِنْ مُضَرَ بَلْ کُلُّهُمْ مِنْ مُضَرَ فَتَمَعَّرَ وَجْهُ رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم لِمَا رَأَی بِهِمْ مِنَ الْفَاقَةِ فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ فَأَمَرَ بِلَالًا فَأَذَّنَ وَأَقَامَ فَصَلَّی ثُمَّ خَطَبَ فَقَالَ {يَا أَيُهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّکُمْ الَّذِي خَلَقَکُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ} (النساء، 4:1) إِلَی آخِرِ الْآيَةِ {إِنَّ اﷲَ کَانَ عَلَيْکُمْ رَقِيبًا} وَالْآيَةَ الَّتِي فِي الْحَشْرِ {يَآ اَيُهَا الَّذِيْنَ أَمَنُوْا اتَّقُوا اﷲَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ} (الحشر: 18) تَصَدَّقَ رَجُلٌ مِنْ دِينَارِهِ مِنْ دِرْهَمِهِ مِنْ ثَوْبِهِ مِنْ صَاعِ بُرِّهِ مِنْ صَاعِ تَمْرِهِ حَتَّی قَالَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ قَالَ فَجَاءَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ بِصُرَّةٍ کَادَتْ کَفُّهُ تَعْجِزُ عَنْهَا بَلْ قَدْ عَجَزَتْ قَالَ ثُمَّ تَتَابَعَ النَّاسُ حَتَّی رَأَيْتُ کَوْمَيْنِ مِنْ طَعَامٍ وَثِيَابٍ حَتَّی رَأَيْتُ وَجْهَ رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَتَهَلَّلُ کَأَنَّهُ مُذْهَبَةٌ فَقَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً فَلَهُ أَجْرُهَا وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا بَعْدَهُ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئٌ وَمَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً سَيِّئَةً کَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْئٌ.

’’حضرت جریر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ایک مرتبہ ہم دن کے ابتدائی حصہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، ناگاہ آپ کے پاس لوگوں کی ایک جماعت آئی جن کے پیر ننگے، بدن ننگے، گلے میں چمڑے کی کفنیاں یا عبائیں پہنے ہوئے اور تلواریں لٹائے ہوئے تھے، ان میں اکثر بلکہ سب قبیلہ مضر سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے فقر و فاقہ کو دیکھ کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ انور متغیر ہو گیا، آپ اندر گئے پھر باہر آئے اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دینے کا حکم دیا۔ حضرت بلال نے اذان دی، پھر اقامت کہی، آپ نے نماز پڑھائی، پھر خطبہ دیا اور فرمایا: اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک نفس سے پیدا کیا، (یہ پوری آیت پڑھی) اور سورہ حشر کی یہ آیت پڑھی (ترجمہ :) انسان کو غور کرنا چاہیے کہ وہ کل آخرت کے لیے کیا بھیج رہا ہے، لوگ درہم، دینار، اپنے کپڑے، گیہوں اور جو با اندازہ صاع (ساڑھے چار سیر کا پیمانہ) صدقہ کریں خواہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی ہو۔ راوی کہتے ہیں انصار میں سے ایک شخص تھیلی لے کر آئے جس کو اٹھانے سے ان کا ہاتھ تھکا جاتا تھا بلکہ تھک گیا تھا، اس کے بعد لوگوں کا تانتا بندھ گیا، یہاں تک کہ میں نے کھانے اور کپڑے کے دو ڈھیر دیکھے حتیٰ کہ میں نے دیکھا کہ (خوشی سے) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ تمتما رہا تھا یوں لگتا تھا جیسے آپ کا چہرہ سونے کا ہو۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص اسلام میں کسی نیک کام کی ابتداء کرے اس کو اپنے عمل کا بھی اجر ملے گا اور بعد میں عمل کرنے والوں کے عمل کا بھی اجر ملے گا اور ان عاملین کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہو گی اور جس نے اسلام میں کسی برے عمل کی ابتداء کی اسے اپنے عمل کا بھی گناہ ہو گا اور بعد میں عمل کرنے والوں کے عمل کا بھی گناہ ہو گا اور ان عاملین کے گناہ میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔‘‘

  1. مسلم، الصحیح، 2: 705، رقم : 1017، دار احیاء التراث العربی بیروت
  2. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 358، رقم : 19197 مؤسسۃ قرطبۃ مصر
  3. ابن ابی شیبۃ، المصنف، 2 : 350، رقم : 9802 ، مکتبۃ الرشید الریاض
  4. نسائی، السنن الکبری، 2 : 39، رقم 2335، دار الکتب العلمیۃ بیروت
  5. طبرانی، المعجم الکبیر، 2 : 328، رقم 2372، مکتبۃ الزھراء الموصل
  6. بیہقی، السنن الکبری، 4 : 175، رقم : 7530، مکتبۃ دار الباز مکۃ المکرمۃ

مذکورہ بالا حدیث مبارکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز کے بعد خطبہ ارشاد فرمایا اور فقر وفاقہ کے مارے ہوئے لوگوں کی مدد کے لیے چندہ جمع کیا۔ معلوم ہوا مسجد میں چندہ کی اپیل تو کی جا سکتی ہے۔ لیکن اس بات کو ضرور ملحوظ خاطر رکھا جائے گا کہ ہر کوئی اٹھے اور کھڑا ہو کر چندہ کی اپیل کرنا شروع کر دے اس طرح تو ہر نماز کے بعد مسجد میں رش لگ جائے گا۔ یا پھر مسجد کے لیے چندہ جمع کرنے کے لیے سپیکر پر کئی کئی گھنٹے تک چندہ کی اپیل کرتے رہیں اور لوگ پانچ پانچ، دس دس روپے لے کر آئے رہیں۔ محلہ داروں کو بھی تکلیف میں دیتے رہیں۔ یا پھر جو چرسی، بھنگی، نشئی مسجد میں آ کر چندہ کی اپیل کرنا شروع کر دے۔ ان تمام صورتوں میں منع ہی کیا جائے بہتر ہے۔ آج کل تو یہ لعنت عام ہے۔ اس مہنگائی کے دور میں محنت ومشقت کرنے کی بجائے بھیک مانگنے پر اتر آتے ہیں۔

لہذا غریب غرباء کے لیے یا دیگر جائز امور مسجد میں مہذب طریقے سے چندہ کی اپیل کی جائے تو کوئی قباحت نہیں ہے، جائز ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی