مستعمل پانی کے بارے میں‌ کیا شرعی حکم ہے؟


سوال نمبر:2597
السلام علیکم میرا سوال یہ ہے کہ مستعمل پانی کا کیا مسئلہ ہے اس کے بارے میں‌ تفصیل سے مع حوالہ جواب دیں۔

  • سائل: سید وجاہت علیمقام: انڈیا
  • تاریخ اشاعت: 04 جولائی 2013ء

زمرہ: طہارت

جواب:

والماء المستعمل لا يجوز استعماله فی طهارة الاحداث والماء

المستعمل : هو ماء أزيل به حدث أو استعمل فی البدن علی وجه القربة.

اور ماء مستعمل کا استعمال جائز نہیں طہارت احداث میں۔ اور مستعمل پانی وہ ہے جس سے کوئی ناپاکی دور کی گئی ہو یا بدن میں قربت الہی کے طور پر استعمال کیا گیا ہو۔'

امام ابی الحسین احمد بن محمد البغدادی، القدوری : 45، 46، مؤسسۃ الریان

سادہ الفاظ میں اس کی وضاحت یوں کی جا سکتی ہے کہ استعمال شدہ پانی سے پاکی حاصل نہیں کی جا سکتی۔ اس کی دو اقسام ہیں :

  1. ایک استعمال شدہ پانی ایسا ہے کہ جس سے کوئی نجاست یعنی گندگی دھوئی جائے۔ یہ پانی بھی نجس ہو جاتا ہے۔
  2. دوسری قسم یہ کہ جسم پاک ہو لیکن قرب الہی کے لیے استعمال کیا جائے جیسے وضو کا پانی۔ یہ پانی تو پاک ہوتا ہے لیکن اس سے پاکی حاصل نہیں کی جا سکتی۔

پہلی قسم کا ماء مستعمل نجس ہوتا ہے یعنی ناپاک ہوتا ہے۔ دوسری قسم کا ماء مستعمل ناپاک نہیں ہوتا مگر اس سے جسم کو پاک نہیں کیا جا سکتا ہے یعنی دوبارہ استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ایسے پانی کے قطرے مسجد میں گر جائیں تو کوئی حرج نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ کپڑے ناپاک کرتا ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی