کیا بیوہ خاوند کے مال کو اپنی مرضی سے تقسیم کر سکتی ہے؟


سوال نمبر:2519
السلام علیکم اگر ایک شخص یہ زبانی وصیت کرے کہ میری جائیداد میں سے 10 دس لاکھ میری تین 3 بیٹیوں کو ملے اور باقی جو بھی بچے چاہے وہ 3 کروڑ ہی کیوں نہ ہو وہ میرے 2 بیٹوں میں‌ تقسیم ہو تو کیا ایسی وصیت کرنا جائز ہے اور اس کی کیا شرعی حیثیت ہے۔ اب ان کی جائیداد کی تقسیم کیسے ہو گی جس میں‌ کوئی گنہگار نہ ہو۔ برائے مہربانی یہ بھی بتائیں کے کیا بیوہ اپنے خاوند کے مال کو اپنی مرضی سے تقسیم کر سکتی ہے؟

  • سائل: مستقیم چوہدریمقام: ابو دہبی، متحدہ عرب عمارات
  • تاریخ اشاعت: 06 اپریل 2013ء

زمرہ: تقسیمِ وراثت

جواب:

پہلی بات یہ ہے کہ ورثاء کے لیے وصیت نہیں کی جا سکتی، وصیت صرف غیر وارث کے لیے جائز ہوتی ہے۔ اگر کوئی وارث کے لیے وصیت کر بھی دے تو اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔ لہذا میت کی تجہیز وتکفین، قرض کی ادائیگی اور غیر وارث کے لیے اگر وصیت کی گئی ہو تو ایک تہائی (1/3) سے پورا کرنے کے بعد باقی مال کا آٹھواں (1/8) حصہ بیوہ کو دینے کے بعد بقیہ جائیداد کو بیٹے بیٹیوں میں اس طرح تقسیم کیا جائے گا کہ ہر لڑکے کو دو حصے اور لڑکی کو ایک حصہ ملے گا۔

دوسری بات یہ ہے کہ بیوہ کا اپنے خاوند کے مال میں آٹھواں (1/8) حصہ ہے اولاد ہونے کی صورت میں، اگر اولاد نہیں ہے تو چوتھا (1/4) حصہ ہے، جس کی وہ مالک بنتی ہے، اس کے علاوہ مال اس کی ملکیت نہیں ہوتا ہے، اس لیے اس کی مرضی نہیں چلے گی۔ قرآن وحدیث کے مطابق باقی ورثاء میں تقسیم کی جائے گی۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی