کیا ماتم کرنا جائز ہے؟


سوال نمبر:2496
السلام علیکم میرا سوال یہ ہے کہ کیا ماتم کرنا جائز ہے؟ اگر نہیں تو اس کے کیخلاف کیا احکام ہیں؟ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے آج تک اس کے کیخلاف بات کیوں نہیں کی؟ جواب حوالاجات کے ساتھ دیں؟

  • سائل: محمد اسدمقام: گکھڑ سٹی، گجرانوالہ
  • تاریخ اشاعت: 04 جولائی 2013ء

زمرہ: تعزیتِ میت

جواب:

ماتم کرنا جائز نہیں ہے۔ دلائل درج ذیل ہیں:

حدیث پاک ہے کہ:

عن عبد الله رضی الله عنه عن النبی صلی الله عليه وآله وسلم قال ليس منا من ضرب الخدود وشق الجيوب ودعا بدعوی الجاهلية.

'حضرت عبد اللہ مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو رخسارے پیٹے، گریبان پھاڑے اور دور جاہلیت کی طرح چیخے چلائے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔'

  1. بخاری، الصحيح، ا : 436، رقم 1235، دار ابن کثير، اليمامة بيروت

  2. مسلم، الصحيح، 1 : 99، رقم : 103، دار احياء التراث العربي بيروت

  3. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 386، رقم 3658، مؤسسة قرطبة مصر

  4. نسائی، السنن الکبری، 1 : 611، رقم : 1989، دار الکتب العلمية بيروت

معلوم ہوا کہ اگر کوئی مصیب آئے تو واویلا اور چیخ وپکار کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اس لیے اگر کوئی فوت ہو جائے، اس پر بھی آنسو بہانا تو جائز ہے لیکن رخسار پیٹنا، گریبان پھاڑنا اور ماتم کرنا جائز نہیں ہے۔

یہ بات تو عقل کے خلاف بھی ہے کہ دشمن آپ پر حملہ کرے اور آپ اس کا مقابلہ کرنے کے بجائے ماتم کرنا شروع کر دیں۔ میدان کربلا میں سیدنا امام حسین علیہ السلام نے بھی ایسا نہیں کیا بلکہ یزیدیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور حق کو فتح دلائی۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد بھی اہل بیت اطہار کے جو افراد باقی تھے ان میں سے بھی کسی نے ماتم نہیں کیا بلکہ صبر واستقامت کے ساتھ تمام مصائب واعلام کا سامنا کیا۔

لہذا ماتم کرنا جائز نہیں ہے۔ غم حسین میں آنسو بہانا جائز ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب تو کسی کے بھی خلاف بات نہیں کرتے ہیں۔ ان کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ کسی اختلافی مسئلہ کو پکڑ کر اس پہ فتنہ فساد برپا کر دیں۔ وہ کسی ایک موضوع کو پکڑتے ہیں اور اس پر علمی گفتگو کرتے ہیں تاکہ آئندہ کے لیے وہ موضوع لوگوں کے سامنے کھلی کتاب کی طرح عیاں رہے اور وہ موضوع ایسے ہیں جن میں خرابی مسلمانوں کے ایمان میں خرابی کا باعث بن سکتی ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی