منت ماننے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟


سوال نمبر:2350
السلام علیکم میرا سوال یہ ہے کہ منت ماننے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ دس بیبیوں کی کہانی اور بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا کا معجزا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا معجزا کیا ان کی منت ماننا جائز ہے؟ کیا یہ سب حقیقت پر مبنی ہیں؟ کچھ عورتوں سے تو میں نے یہ بھی سنا ہے کہ بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا کے روٹ کی منت بھی ہے، اس میں صرف خواتین شامل ہوتی ہیں مرد نہیں اور حاملہ کو اگر یہ پتا ہے کہ اس کے پیٹ میں‌ لڑکا ہے، تو وہ بھی شامل نہیں ہو سکتی۔ کیا اس کا انکار کرنے والے پر اللہ کا عذاب ہوتا ہے؟ برائے مہربانی تفصیل سے وضاحت فرمائیں۔

  • سائل: عریشہمقام: لندن
  • تاریخ اشاعت: 31 جنوری 2013ء

زمرہ: نذر یا منت

جواب:

1۔ منت کسی جائز عمل کی ہونی چاہیے جس کو سر انجام دینا ممکن ہو۔ مثلاً اگر فلاں کام ہوگیا تو میں نفل پڑھوں گا، کوئی چیز تقسیم کروں گا، درود وسلام پڑھوں گا یا روزہ رکھوں گا وغیرہ وغیرہ ، نفل، چیز کی تقسیم درود وسلام یا روزوں کی مقدار اتنی ہونی چاہیے جو آپ کے لیے ممکن ہو۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ لاکھوں، کروڑوں یا اربوں کی تعداد میں نفل یا روزے کی منت مان لیں، جو پوری زندگی دن رات بھی لگے رہنے سے پوری کرنا ممکن نہ ہو۔ کوئی ایسا عمل نہ ہو جو اسلام میں جائز نہ ہو۔ اگر کوئی ایسی منت مان لے جو اسلام میں جائز نہ ہو یا وہ ممکن نہ ہو تو منت ماننے والا اس کو پورا نہ کرے بلکہ قسم کا کفارہ ادا کر دے۔

2۔ دس بیبیوں کی کہانی کے بارے میں ہمیں معلوم نہیں کہ اس میں کیا ہے۔ بہرحال امام ترمذی نے شمائل ترمذی میں گیارہ بیبیوں کی کہانی نقل کی ہے جو درج ذیل ہیں:

ام زرع کی حدیث

"حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: گیارہ عورتوں نے مل بیٹھ کر آپس میں پختہ معاہدہ کیا کہ وہ اپنے خاوندوں کے حالات (ایک دوسرے سے ) نہیں چھپائیں گیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما نے فرمایا پہلی عورت نے کہا کہ میرا خاوند دشوار گزار پہاڑی پر دبلے اونٹ کے گوشت کی طرح ہے، نہ تو وہ پہاڑ اتنا آسان ہے کہ اس پر چڑھا جا سکے اور نہ ہی وہ گوشت اتنا موٹا ہے کہ محنت سے لایا جائے (یعنی میرا خاوند نا کارہ ہے) دوسری عورت نے کہا میرا خاوند (ایسا ہے) کہ میں اس کا حال ظاہر نہیں کر سکتی مجھے ڈر ہے کہ میں اسے چھوڑ ہی نہ دوں۔ اگر میں اس کا حال بیان کروں تو تمام عیوب بیان کروں گی (یعنی میرے خاوند کے حالات ناقابل بیان ہیں) تیسری عورت نے کہا کہ میرا خاوند (بے تکا) لمبا ہے، اگر اس کو میں کچھ کہوں تو (مجھے) طلاق دے دی جاتی ہے اور اگر خاموش رہوں تو لٹکائی جاتی ہوں (یعنی کسی طرف کی نہیں رہتی)۔ چوتھی عورت نے کہا میرا خاوند مکہ مکرمہ کی رات کی طرح نہ گرم نہ سرد نہ خوف اور نہ رنج (یعنی میرا خاوند معتدل مزاج ہے)۔ پانچویں عورت نے کہا کہ میرا خاوند گھر آئے تو چیتا باہر جائے تو شیر ہے، وہ گھریلو معاملات کی تحقیق نہیں کرتا۔ چھٹی عورت نے کہا میرا خاوند جب کھانا کھاتا ہے تو سب سمیٹ لیتا ہے، پانی پیئے تو سب چڑھا لیتا ہے، جب لیٹتا ہے تو کپڑا خوب لپیٹ لیتا ہے اور میرے کپڑے میں ہاتھ ڈال کر (میرے) رنج وراحت کو معلوم نہیں کرتا (یعنی لاپرواہ ہے) ساتویں عورت نے کہا میرا خاوند سست ہے (یا اس عورت نے کہا) ناکارہ بیوقوف ہے۔ وہ ہر بیماری میں مبتلا ہے تجھے زخمی کر دے یا تیری ہڈی توڑ دے یا تیرے لیے دونوں جمع کر دے (یعنی وہ بیوقوف اور ناکارہ شخص ہے) آٹھویں عورت نے کہا میرے خاوند کو ہاتھ لگانا خرگوش کو ہاتھ لگانے کے برابر ہے (نہایت ملائم بدن والا ہے) اور وہ زعفران کی طرح خوشبودار ہے۔ نویں عورت نے کہا میرا خاوند اونچے ستونوں والا (عالی نسب) بہت بڑی راکھ والا (سخی) لمبے پر تلے والا (دراز قد) اور اس کا گھر مشورہ گاہ کے قریب ہے (یعنی معتبر آدمی ہے) دسویں عورت نے کہا میرے خاوند کا نام مالک ہے اور کیسا مالک؟ وہ مالک اس (نویں عورت کے خاوند) سے بہتر ہے۔ وہ اونٹوں کا مالک ہے اور اس کے اونٹ اکثر باڑے میں رہتے ہیں اور بہت کم چراگاہ میں جاتے ہیں۔ جب وہ (اونٹ) گانے بجانے کی آواز سنتے ہیں (مہمانوں کے استقبال سے کنایہ ہے) تو اپنے ذبح ہونے کا یقین کر لیتے ہیں (یعنی یہ شخص امیر بھی ہے اور مہمان نواز بھی) گیارہویں عورت نے کہا کہ میرا خاوند ابو زرع ہے اور ابو زرع کیا ہے؟ اس نے زیورات سے میرے کان ہلا دیے اور چربی سے میرے بازو بھر دیے (خوب کھلایا پلایا) اس نے مجھے خوش کیا تو میں اپنے آپ سے خوش ہوئی۔ اس نے مجھے تھوڑی سی بکریوں والوں (غریب خاندان) میں پایا تو مجھے امیروں میں لے آیا، جہاں اونٹوں اور گھوڑوں کی آوازیں آتی ہیں اور گاہنے والے بیل اور بھوسہ جدا کرنے والے آدمی ہیں (یعنی مالدار سسرال) میں بات کرتی ہوں تو برا نہیں منایا جاتا۔ جب میں سوتی ہوں تو صبح تک سوئی رہتی ہوں اور پیتی ہوں تو سیراب ہو کر پیتی ہوں، ابو زرع کی ماں بھی کیسی (باکمال) عورت ہے۔ اس کے برتن بڑے بڑے ہیں اور اس کا گھر کشادہ ہے۔ ابوزرع کے بیٹے کی شان بھی عجیب ہے، اس کا پہلو کھجور کی بے پھل ٹہنی کی طرح ہے اور اسے بکری کے بچے کا صرف ایک باز و سیر کر دیتا ہے۔ ابو زرع کی بیٹی بھی کیا ہی (لائق تعریف) ہے۔ ماں باپ کی فرمانبردار اور چادر کو بھرنے والی ہے (موٹی تازی) اور اپنی ہمسایہ عورت (سوکن) کو جلانے والی ہے۔ ابو زرع کی لونڈی بھی کیا ہی (قابل ستائش) ہے نہ ہمارے راز ظاہر کرتی ہے نہ ہمارا غلہ چوری کرتی ہے اور نہ ہی ہمارے گھر کو کوڑے کرکٹ سے بھرتی ہے۔ ام زرع نے کہا کہ ابو زرع گھر سے نکلا۔ اس وقت دودھ کی مشکیں بلوئی جا رہی تھیں (یعنی دودھ سے مکھن نکالا جا رہا تھا) اس نے ایک عورت سے ملاقات کی جس کے ساتھ (اس کے) چیتے کی طرح دو بچے اس کے پہلو میں دو اناروں سے کھیل رہے تھے۔ (اس کے بعد) ابو زرع نے مجھے طلاق دے دی اور (پھر) میں نے بھی ایک ایسے سردار سے شادی کر لی جو گھوڑے پر سوار ہوتا، ہاتھ میں خطی نیزہ ہوتا (مقام خط، جو بحرین کی بندرگاہ کے پاس ہے کا نیزہ خطی کہلاتا ہے) اور سہ پہر کو وہ میرے پاس کثرت سے چوپائے لے آتا، اس نے مجھے ان چوپایوں میں سے ایک ایک جوڑا دیا اور کہا اے ام زرع ! تو خود بھی کھا اور اپنے اقارب کو بھی غلہ دے (اس کے باوجود) اگر میں اس کے دیے ہوئے تمام عطیات جمع کروں تو بھی ابو زرع کے چھوٹے سے چھوٹے برتن کے برابر نہ ہوں گے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا (اے عائشہ!) میں تیرے لیے ایسا ہوں جیسا ابوزرع ، ام زرع کے لیے تھا (یعنی نہایت شفیق اور مہربان)

امام ترمذی، الشمائل المحمدية، 1: 209، رقم:254، مؤسسة الکتب الثقافية بيروت

لہذا مذکورہ بالا حدیث یا کوئی اور ایسا مستند واقعہ جو قرآن وحدیث سے ثابت ہو اس کے پڑھنے کی منت مانی جائے تو درست ہے۔ اگر کوئی من گھڑت قصہ کہانی ہے تو اسے پڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، اگر وہ قرآن وحدیث کے منافی ہو تو ناجائز ہے۔

3۔ معجزہ صرف نبی کا ہوتا ہے، غیر نبی کا معجزہ نہیں ہوتا، یہ سرے سے جہالت پر مبنی ہے۔

4۔ جو صورت جائز ہو سکتی ہے آپ کو بتا دیا، باقی ساری باتیں غلط ہیں، جھوٹ اور جہالت پر مبنی ہیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی