کیا چمگادڑ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے تخلیق فرمایا ہے؟


سوال نمبر:2311
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! چند سوالات پیش خدمت ہیں براہ کرم حوالہ جات کے ساتھ جوابات مرحمت فرمائیں: ساری مخلوقات کو اللہ تبارک و تعالی نے بنایا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیاچمگادڑ بھی اسی کی تخلیق ہے؟ یا اسے سیدنا و نبینا حضرت عیسی علیہ السلام نے بنایا ہے؟ جب اللہ پاک کسی کام کا ارادہ فرماتا ہے تو وہ کن فرما دیتا ہے اور کام ہو جاتا ہے۔ قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں ارض و سماء کی تخلیق کے متعلق بتایا گیا ہے کہ اسے چھے دنوں میں بنایا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کا کیا معنیٰ ہے؟ والسلام

  • سائل: عاطف احمدمقام: کویت
  • تاریخ اشاعت: 19 اپریل 2014ء

زمرہ: توحید

جواب:

قرآن پاک میں بار بار اس بات کا اظہار کیا گیا ہے کہ ہر چیز کی تخلیق کرنے والا اللہ تعالی ہی ہے۔

1. ذَلِكُمُ اللّهُ رَبُّكُمْ لاَ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ فَاعْبُدُوهُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ.

یہی (اﷲ) تمہارا پروردگار ہے، اس کے سوا کوئی لائقِ عبادت نہیں، (وہی) ہر چیز کا خالق ہے پس تم اسی کی عبادت کیا کرو اور وہ ہر چیز پر نگہبان ہے۔

(الانعام، 6 : 102)

2. هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللَّهِ يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ.

کیا اﷲ کے سوا کوئی اور خالق ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سے روزی دے،

(فاطر، 35 : 3)

3. مَا خَلَقَ اللّهُ ذَلِكَ إِلاَّ بِالْحَقِّ.

اور اللہ نے یہ (سب کچھ) نہیں پیدا فرمایا مگر درست تدبیر کے ساتھ،

(یونس، 10 : 5)

4. قُلِ اللّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ.

فرما دیجیے اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے۔

(الرعد، 13 : 16)

اسی طرح بے شمار آیات ہیں جن میں یہی مضمون بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالی ہی ہر شے کا خالق ہے۔ ہاں اللہ تعالی اگر کسی کو اذن دے وہ حکم الہی سے ہی کوئی کام کر سکتا۔

آپ نے چمگادڑ کے بارے میں دریافت کیا ہے کہ یہ بھی اللہ تعالی نے ہی پیدا کی ہے؟ ظاہر ہے جب اللہ تعالی نے ہر چیز پیدا کی ہے تو چمگادڑ بھی اسی نے بنائی ہے۔ کسی آیت یا حدیث مبارکہ میں تو یہ بیان نہیں ہے کہ چمگادڑ عیسی علیہ السلام نے پیدا کی ہے۔ ہاں یہ ضرور قرآن پاک میں آتا ہے کہ عیسی علیہ السلام مٹی سے پرندے کی شکل بنا کر اس میں پھونک مارتے تو وہ اللہ کے حکم سے اڑ جاتا۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:

وَرَسُولاً إِلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنِّي قَدْ جِئْتُكُم بِآيَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم مِّنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللّهِ.

اور وہ بنی اسرائیل کی طرف رسول ہو گا (ان سے کہے گا) کہ بیشک میں تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے ایک نشانی لے کر آیا ہوں میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے کی شکل جیسا (ایک پُتلا) بناتا ہوں پھر میں اس میں پھونک مارتا ہوں سو وہ اﷲ کے حکم سے فوراً اڑنے والا پرندہ ہو جاتا ہے۔

(آل عِمْرَان ، 3 : 49)

دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ لفظ کن کے ذریعے اللہ تعالی نے اپنی طاقت کا اظہار فرمایا ہے اور چھ دنوں (یعنی چھ مدتوں یا مرحلوں) کا ذکر کر کے ہمیں تعلیم دی ہے کہ جلد بازی نہ کی جائے کیونکہ جو ’’کن‘‘ کے ذریعے کسی بھی چیز کو بنا سکتا ہے لیکن پھر بھی ایک نظم کے ساتھ ہر چیز کو پیدا فرمارہا ہے۔ جیسے آدم علیہ السلام کو باپ اور ماں کے بغیر پیدا فرمایا، حضرت عیسی علیہ السلام کو بغیر باپ کے پیدا فرمایا، حضرت صالح علیہ السلام کی ناقہ (اوٹنی) کو آپ کی دعا سے پتھر سے پیدا فرمایا، عصا سے اژدھا اور رسیوں سے سانپ بنا دیے یہ سارے قدرت الہی کے مظاہر ہیں کہ وہ ایسا بھی کر سکتا ہے۔ لیکن عام قانون یہ ہے کہ بچہ ماں باپ کے ملاپ سے پیدا فرماتا ہے۔ اسی طرح ہر چیز کا ایک وقت اور طریقہ ہے۔

لہذا یہ جو چھ دنوں، مدتوں یا مرحلوں کا ذکر کیا یہ ہماری تعلیم کے لیے ہے اور اس میں حکمت ہے۔ جب وقت ہی نہیں تھا تو دن رات کہاں سے آئے؟

ان مراحل کا تفصیلی مطالعہ کرنے کے لیے
پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی کتاب
تخلیق کائنات
ملاحظہ کریں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی