کیا حضور (ص) کے پاس حرام کو حلال اور حلال کو حرام کرنے کا اختیار تھا؟


سوال نمبر:2060
میرا سوال یہ ہے کہ کیا انبیاء علیہم السلام کی بالذات اطاعت فرض ہوتی ہے؟ کیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شریعت بنانے والے ہیں؟ یعنی کیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ اختیار تھا کہ حلال کو حرام کرتے اور حرام کو حلال کرتے؟ کیا امت پر جائز کو ناجائز کرنے اور ناجائز کو جائز کرنے کا بھی اختیار تھا؟

  • سائل: اسلاممقام: انڈیا
  • تاریخ اشاعت: 11 اکتوبر 2012ء

زمرہ: اختیارات مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم

جواب:

انبیاء علیہم السلام کی بالذات اطاعت فرض ہوتی ہے کیونکہ نبی کی اطاعت بھی اللہ ہی کی اطاعت ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں ہے :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الْأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً.

(النساء، 04 : 59)

اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو اوراپنے میں سے (اہلِ حق) صاحبانِ اَمر کی، پھر اگر کسی مسئلہ میں تم باہم اختلاف کرو تو اسے (حتمی فیصلہ کے لئے) اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو، (تو) یہی (تمہارے حق میں) بہتر اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے۔

مَّنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّهَ وَمَن تَوَلَّى فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا.

(النسا، 04 : 80)

جس نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ (ہی) کا حکم مانا، اور جس نے روگردانی کی تو ہم نے آپ کو ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا۔

قُلْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَالرَّسُولَ فإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ الْكَافِرِينَ.

(آل عِمْرَان ، 3 : 32)

آپ فرما دیں کہ اﷲ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو پھر اگر وہ روگردانی کریں تو اﷲ کافروں کو پسند نہیں کرتا

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْاْ إِلَى مَا أَنزَلَ اللّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ رَأَيْتَ الْمُنَافِقِينَ يَصُدُّونَ عَنكَ صُدُودًا.

(النِّسَآء ، 4 : 61)

اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے نازل کردہ (قرآن) کی طرف اور رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف آجاؤ تو آپ منافقوں کو دیکھیں گے کہ وہ آپ (کی طرف رجوع کرنے) سے گریزاں رہتے ہیں

وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللّهِ.

(النِّسَآء، 4 : 64)

اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اس لئے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے،

وَمَن يُطِعِ اللّهَ وَالرَّسُولَ فَأُوْلَـئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَـئِكَ رَفِيقًا.

(النِّسَآء، 4 : 69)

اور جو کوئی اللہ اور رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرے تو یہی لوگ (روزِ قیامت) ان (ہستیوں) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے جو کہ انبیاء، صدیقین، شہداءاور صالحین ہیں، اور یہ بہت اچھے ساتھی ہیں

وَأَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَاحْذَرُواْ فَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُواْ أَنَّمَا عَلَى رَسُولِنَا الْبَلاَغُ الْمُبِينُ.

(المائده، 05 : 92)

اور تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو اور (خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت سے) بچتے رہو، پھر اگر تم نے رُوگردانی کی تو جان لو کہ ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صرف (احکام کا) واضح طور پر پہنچا دینا ہی ہے (اور وہ یہ فریضہ ادا فرما چکے ہیں)

قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ فَإِن تَوَلَّوا فَإِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ وَعَلَيْكُم مَّا حُمِّلْتُمْ وَإِن تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ.

(النور، 24 : 54)

فرما دیجئے: تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو، پھر اگر تم نے (اطاعت) سے رُوگردانی کی تو (جان لو) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمہ وہی کچھ ہے جو ان پر لازم کیا گیا اور تمہارے ذمہ وہ ہے جو تم پر لازم کیا گیا ہے، اور اگر تم ان کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پا جاؤ گے، اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر (احکام کو) صریحاً پہنچا دینے کے سوا (کچھ لازم) نہیں ہے

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ.

(محمد، 47 : 33)

اے ایمان والو! تم اﷲ کی اطاعت کیا کرو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کیا کرو اور اپنے اعمال برباد مت کرو

إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَلَى نَفْسِهِ وَمَنْ أَوْفَى بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللَّهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا.

(الفتح، 48 : 10)

(اے حبیب!) بیشک جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ اﷲ ہی سے بیعت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں پر (آپ کے ہاتھ کی صورت میں) اﷲ کا ہاتھ ہے۔ پھر جس شخص نے بیعت کو توڑا تو اس کے توڑنے کا وبال اس کی اپنی جان پر ہوگا اور جس نے (اس) بات کو پورا کیا جس (کے پورا کرنے) پر اس نے اﷲ سے عہد کیا تھا تو وہ عنقریب اسے بہت بڑا اجر عطا فرمائے گا

جب تک آپ نبی کی ذات کی اطاعت نہیں کریں گے اس وقت تک آپ نبی کی تعلیمات پر عمل نہیں کر سکیں گے۔ مثال کے طور پر بخاری شریف میں ہے :

صلوا کما رايتمونی اصلی.

جیسے تم مجھے (نماز) پڑھتا دیکھ رہے ہو اسی طرح تم بھی پڑھو۔

بخاری، الصحيح، 01 : 226، رقم : 605 دار ابن کثير اليمامه، بيروت

مذکورہ بالا حدیث مبارکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دو حیثیتیں واضح ہوتی ہیں ایک بطور شارع اور دوسری اطاعت بالذات یعنی نماز کا طریقہ وہی بن گیا جس طریقے سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز ادا فرمائی۔ قرآن پاک میں ہے:

 يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَآئِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلاَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ.

(الاعراف، 7 : 157)

جو انہیں اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے منع فرماتے ہیں اور ان کے لئے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور ان پر پلید چیزوں کو حرام کرتے ہیں اور ان سے ان کے بارِگراں اور طوقِ (قیود) جو ان پر (نافرمانیوں کے باعث مسلّط) تھے، ساقط فرماتے (اور انہیں نعمتِ آزادی سے بہرہ یاب کرتے) ہیں۔

وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا.

(الحشر، 59 : 07)

اور جو کچھ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں عطا فرمائیں سو اُسے لے لیا کرو اور جس سے تمہیں منع فرمائیں سو (اُس سے) رُک جایا کرو،

معلوم ہوا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مکمل اختیار تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن مجید کی تشریح بھی فرمائی اور کچھ ایسے احکام ہیں جن کے بارے میں قرآن خاموش ہے وہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ سے ہی ملتے ہیں مثلا قرآن مجید میں تو دم مسفوح، مردار اور خنزیر کو حرام قرار دیا گیا لیکن کتا، گدھا، بندر وغیرہ جو جانور ہیں ان کو بھی ہم حرام حرام کہتے ہیں اور ان کو کھاتے بھی نہیں قرآن میں ان سے منع بھی نہیں کیا گیا یہ حدیث مبارکہ کی روشنی میں حرام ہیں یہی اختیارات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں کہ ہمارے لیے حرام و حلال صرف وہ نہیں جو قرآن اللہ تعالی نے بیان فرمایا بلکہ وہ بھی ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی