کونسے طلبہ زکوٰۃ کے پیسوں سے تعلیم حاصل کر سکتے ہیں؟


سوال نمبر:2044

محترم مفتی صاحب!
گورنمنٹ نے وکیشنل انسٹی ٹیوٹ کے نام سے جو ادارا قا ئم کیا ہے اُس میں مستحقین زکوٰۃ کو مختلف کورسز کروائے جا تے ہیں، اور اُن کے اشتہار کے اُوپر بھی واضح طور پرلکھا ہوتا ہے کہ یہ مستحقین زکوٰۃ کے لئے ہے۔ اُس ادارے میں ان کے بتانے کے مطابق جو طالب علم داخلہ لیتا ہے اُس کا اکاؤنٹ بنک میں کھلوایا جاتا ہے اور اُس کے اکاؤنٹ میں ہر ماہ 2500 روپے گورنمنٹ کی طرف سے آتے ہیں، وہ روپے زکوٰۃ کے ہوتے ہیں۔ 2500 روپے میں سے 2000 روپے ادارہ طالب علم کی کتابیں اور دوسرے اخراجات کے لیے استعمال کرتا ہے اور
500 روپے طالب علم کو دیا جاتا ہے۔سوالات یہ ہیں :

  1. اسلام کی رو سے اس زکوٰۃ کا مستحق کون ہے؟ اور کس طرح کے طالب علم یہ زکوٰۃ لے سکتے ہیں؟
  2. والد مستحق زکوٰۃ نہیں ہے، طالب علم جو والد کی کفالت میں ہے کیا وہ یہ زکوٰۃ لے سکتا ہے؟
  3. اس ادارے میں کس قسم کے بچے داخلہ لینے کے مستحق ہیں؟
  4. جو مستحق زکوٰۃ نہ ہونے کے باوجود ادارے میں داخلہ لیتا ہے اُس کے بارے میں کیا حکم ہے؟
  5. سرپرست کی زیادہ سے زیادہ کتنی آمدنی ہو تو اُس کا بچہ ادارے میں داخلہ لے سکتا ہے؟

برائے مہربانی ان سوالات کا جواب قرآن و احادیث کی روشنی میں دے کر ہماری رہنمائی فرمائیں۔

  • سائل: جمشید اشرفمقام: فیصل آباد
  • تاریخ اشاعت: 03 اگست 2012ء

زمرہ: زکوۃ

جواب:

  1. ایسے تمام طلبہ، جو ضرورت مند ہیں، جن کے پاس وسائل موجود نہیں ہیں وہ زکوۃ کے پیسوں سے تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔
  2. اگر والد مستحق زکوۃ نہیں ہے تو اس کا بیٹا جب تک اس کی زیر کفالت ہے وہ زکوۃ نہیں لے سکتا۔
  3. اس ادارے میں ہر قسم کے طلباء داخلہ لے سکتے ہیں مگر زکوۃ صرف وہی بچے لیں گے جو اس کے مستحق ہوں گے، دوسرے طلبا اپنے واجبات ادا کریں گے، زکوۃ نہیں لیں گے۔
  4. جو مستحق زکوۃ نہیں ہے اسے اپنی فیس اور واجبات ادا کرنے چاہییں، یہی اس کا حکم ہے۔ اسے زکوۃ نہیں لینی چاہیے کیونکہ وہ اس کا مستحق نہیں ہے۔
  5. کسی بھی طالبعلم کا والد یا سرپرست اگر اس کے پاس وسائل نہیں ہیں اس کا مال نصاب کو نہیں پہنچتا۔ وہ ضرورت مند ہے تو وہ زکوۃ لے سکتا ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: حافظ محمد اشتیاق الازہری